غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی امریکی حمایت کے تناظر میں دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر تقریباً 20 سال قبل القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے لکھے گئے “لیٹر ٹو امریکا” کا کچھ حصہ بڑے پیمانے پر زیر بحث ہے۔
سوشل پلیٹ فارم ٹک ٹاک سے وائرل ہونے والے “لیٹر ٹو امریکا” کا مذکورہ حصہ پڑھ کر امریکا کے بہت سے شہری کھل کر اس بات کا اعتراف کرتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکی عوام کے نام لکھے گئے سابق القاعدہ سربراہ کے اس خط نے دہشت گردی کے حوالے سے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں اور اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر تبدیل کر دیا ہے۔
برسوں پہلے سمندر برد کیا گیا ایک طویل القامت شخص پھر سے مغربی دنیا میں زیر بحث ہے گیارہ ستمبر حملوں کو اسامہ بن لادن نے فلسطین کا ردعمل بتاتے ہوا کہا تھا اگر تم تک ہماری چیخیں(فلسطینوں کی ) پہنچتی تو ہمیں جہاز نہ بھیجنے پڑتے https://t.co/uwvm0azlDw
— Faizullah Khan فیض (@FaizullahSwati) November 16, 2023
غزہ پر اسرائیل کی بلاامتیاز سفاکانہ بمباری کی نہایت ڈھٹائی سے امریکی حمایت کے پس منظر میں اس خط کے متعلقہ مندرجات پڑھ کر دنیا کے بہت سے غیر جانبدار افراد یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ آج پتا چلا کہ القاعدہ اور اس کی ہم فکر مسلح مسلم تنظیمیں کیوں امریکیوں کو نشانہ بنانے کے درپے رہتی ہیں؟
القاعدہ سربراہ کے اس خط کو امریکی شہریوں میں خاصی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور وہ اسے متاثر کن قرار دے کر زیادہ سے زیادہ امریکی شہریوں تک اس کے مندرجات پہنچنے کی حمایت کر رہے ہیں۔
آئیے اس خط کے حوالے سے کچھ سوالات کے جوابات حاصل کریں۔
اسامہ بن لادن نے یہ خط کب لکھا؟
بتایا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے نائن الیون کے واقعے کے بعد اس سوال کا جواب دینے کیلئے یہ خط لکھا تھا کہ القاعدہ نے نائن الیون کے حملے کیوں کیے؟
شیخ اسامہ بن لادن کا ایک پرانا ترجمہ شدہ خط گارڈین اخبار کی ویب سائٹ پر 20 -22 سال سے پڑا ہوا تھا۔
حالیہ فلسطینی جہاد کے ماحول میں نوجوان امریکہ نسل نے جب اسے پڑھا تو انکی آنکھیں کھل گئیں۔ سمجھ آگیا کہ اسامہ بن لادن نے امریکہ کو کیوں نشانہ بنایا؟
— Ali (@Eye_On_JIHADISM) November 16, 2023
یہ خط 2002ء میں لکھا گیا، عربی میں لکھے گئے اس خط کو سعودی عرب کے ایک اخبار نے اپنی اشاعت میں شامل کیا، بعد ازاں عرب اخبار سے برطانیہ کے معروف انگریزی اخبار دی گارڈین نے اس خط کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔
اسامہ کا خط کیسے وائرل ہوا؟
دی گارڈین نے ‘لیٹر ٹو امیرکا’ کے عنوان سے اس خط کا ترجمہ اپنی ویب سائٹ پر بھی شائع کر دیا تھا۔ خط کی اشاعت کے بیس سال بعد اسرائیل کی حالیہ سفاکانہ جارحیت کے پس منظر میں کسی نے دی گارڈین کی ویب سائٹ سے یہ خط اٹھا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔
سوشل میڈیا پر بالخصوص ٹک ٹاک پر اسامہ بن لادن کے اس لیٹر کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ٹک ٹاک کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’لیٹر ٹو امریکا‘ ہیش ٹیگ نے منگل اور بدھ کو اس پلیٹ فارم پر 1.8 ملین ویوز حاصل کیے۔
تاہم وائرل ہونے کے بعد ٹک ٹاک انتظامیہ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ خط اپنے پاس سے ہٹا دیا، جس کے بعد یہ ٹک ٹاک سے اب ایکس پر گردش کر رہا ہے۔
— Faizullah Khan فیض (@FaizullahSwati) November 17, 2023
ٹک ٹاک پر وائرل ہونے کے بعد اسامہ بن لادن کے اس تاریخی خط کو دی گارڈین بھی اپنی ویب سائٹ سے ہٹانے پر مجبور ہوگیا، تاہم اب یہ خط دنیا بھر کے انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر اس قدر پھیل چکا ہے کہ ٹک ٹاک اور دی گارڈین کی طرف سے ہٹانے سے کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔
اس خط میں کیا ہے؟
عربی میں اپنے موقف کے حق میں لکھے گئے اس طویل خط میں القاعدہ سربراہ نے تفصیل سے امریکا کے جرائم کا تذکرہ کیا ہے، خط میں اسلامی دنیا میں امریکا کی فوجی کارروائیوں اور مسلم دنیا کے ساتھ امریکا کی کھلی ناانصافیوں کا بھی بالتفصیل ذکر کیا گیا ہے۔
اس خط کے دوبارہ وائرل ہونے کی وجہ کیا ہے؟
اسامہ بن لادن کا یہ خط دوبارہ اس لیے وائرل ہے کہ اس میں مسئلہ فلسطین کا بھی ذکر موجود ہے۔
القاعدہ سربراہ اپنے خط میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ان کی تنظیم امریکیوں کو کیوں نشانہ بناتی ہے، یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ امریکا فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی اور ان کی زمینوں پر اسرائیل اور دنیا بھر کے بھگوڑے یہودیوں کے قبضوں کا ذمے دار ہے، کیونکہ امریکا کی امداد اور شہ پر اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے اور ان کی زمینوں پر قبضے کر رہا ہے۔
اسامہ بن لادن کے لیٹر ٹو امیرکا کا یہی وہ حصہ ہے جو اس کے وائرل ہونے کی وجہ ہے۔ خط کا یہی حصہ امریکی رائے عامہ پر بڑی تیزی سے اثر انداز ہو رہا ہے اور جو بھی امریکی شہری اسے پڑھتا ہے وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کا ملک اسرائیل کی پشت پناہی کرکے نا انصافی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
امریکی رائے عامہ پر اثر
اسی پس منظر میں سوشل میڈیا صارفین اس امر کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں کہ حالیہ غزہ جنگ کے تناظر میں اس خط کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے تاکہ امریکی عوام کو معلوم ہو کہ ان کی حکومت اسرائیل کی جو حمایت کرتی آرہی ہے وہ نہ صرف انتہائی ناجائز ہے بلکہ ان پر ‘دہشت گرد’ تنظیموں کے حملوں کا سبب بھی بن رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی امریکی صارفین نے اسامہ کے خط پر ویڈیوز بنائی ہیں اور دیگر لوگوں سے اسے پڑھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے خارجہ پالیسی اور دہشتگردی پر ان کا نقطۂ نظر تبدیل کیا ہے۔