وفاقی حکومت کی زیرنگرانی این ڈی ایم اے نے شہر میں برساتی ندی ،نالوں کے کناروں پر قائم تجاوزات کے خلاف ایک وسیع آپریشن کی تیاری مکمل کر لی ہے۔
یوں تو ان ندی نالوں کے کنارے قائم تجاوزات کے خلاف ماضی میں سپریم کورٹ آف پاکستان ، سندھ ہائی کورٹ اور واٹر کمیشن متعدد مرتبہ تجاوزات کے خاتمے کے لیے احکامات صادر کر چکے ہیں تاہم اس پر عمل درآمد کسی بھی حکومت یا ادارے نے نہیں کیا ، اس کی ایک وجہ سیاسی مفادات بھی ہیں اور اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے شہر کو مکمل ڈوبنے کے خدشات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔
بڑھتی آبادی اور ٹریفک کے مسائل
کراچی کی آبادی میں 73سال میں 217 فیصد اضافہ ہوا، 1959 کے ریکارڈ کے مطابق یہ شہر 3000 اسکوائر کلومیٹرز تک پھیل گیا۔سنجیدہ حلقوں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر قائد کی آبادی 3 کروڑ کے لگ بھگ ہو گئی ہے تاہم منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے شہر مسائل کا گڑھ بن گیا ہے لیکن اب وفاقی حکومت کی مداخلت کے بعد کچھ بہتر ہوتادکھائی دے رہا ہے،کیوں کہ حالیہ بارشوں کے بعد شہر کا بیشتر حصہ بشمول ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ڈوب جانے کے بعدارباب اختیار نے شاید یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کراچی کو ڈوبنے سے بچانے کا واحد حل اس کے برساتی نالوں کو اصل شکل میں واپس لانا اور اس کی حفاظت کے لیے اسے کشادہ کرنے کے ساتھ دوبارہ تجاوزات کے قیام کو روکنے کے لیے برساتی ندی نالوں کے دونوں کناروں پر طویل سڑکوں کی تعمیر سے نہ صرف اس کی حفاظت ہو گی بلکہ شہر میںسڑکوںکی تعمیرسے نئے راستے و گزرگاہیں دریافت ہو جائیں گی جس سے موجودہ سڑکوں پر ٹریفک جام سے بھی نجات ممکن ہو سکے گی ۔
مون سون بارش
2020 کی تباہ کن مون سون بارشوں کے بعد کراچی کے شہریوں ،تاجر تنظیموں اور صنعت کاروں نے حکومت سندھ او وفاقی حکومت سے مایوس ہو کر آرمی چیف سے مدد طلب کی تھی اور وزیر اعظم پاکستان سے بھی اپیل کی تھی جس کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اہم ذمہ داریاں دیکر کراچی بھیجا گیا تھا، این ڈی ایم اے نے اپنی آمد کے فوری بعد کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی کا کام شروع کیا تھا جس سے صورتحال کافی بہتر ہوچکی ہے۔
کچی آبادیاں اور تجاوزات
شہر کی آبادی بڑھنے سے جہاں کھلے میدانوں کا خاتمہ ہوا وہیں سڑکوں کے لیے کی گئی منصوبہ بندی ناکام ہو گئی اور یہاں بھی تجاوزات قائم ہو گئیں۔اسی طرح برساتی نالوں پر بھی تجاوزات کی بھر مار ہوتی گئی ، جبکہ سرکاری و نجی اراضی پر تا حال قبضے جاری ہیں ،شہر میں قائم کچی آبادیوں اور تجاوزات کی وجہ سے کراچی کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے اس لئے اس حوالے سے ندی نالوں پر تجاوزات کے خلاف بڑے آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔متعلقہ اداروں نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کی تیاریاں مکمل کر لیں، آپریشن میں پاک فوج اور رینجرز کی ٹیمیں بھی شامل ہوں گی، شہری انتظامیہ کے نمائندے آپریشن میں شریک ہوں گے۔
ماضی کے آپریشن
آپریشن کے دوران ندی نالوں کے دونوں اطراف 30 فٹ کی جگہ کلیئر کی جائے گی، تجاوزات پر رہائش پذیر افراد کے لیے عارضی کیمپس بنائے جائیں گے، آپریشن کے سلسلے میں اینٹی انکروچمنٹ کی سندھ بھر سے اضافی نفری بھی کراچی پہنچ گئی ہے۔
27 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی سے 15 روز میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ندی نالوں کو بھی صاف کرنا تھا تاہم اس حکم کے بعد شہر قائد میں تجاوزات کے خلاف بڑا آپریشن شروع کیا گیا تھا اور پہلے مرحلے میں صدر کو صاف کیا گیا تھا اور مشہور ایمپریس مارکیٹس کے اطراف غیر قانونی طور پر قائم ہزاروں دکانیں مسمار کردی گئی تھیں۔صدر کے بعد آپریشن کا رخ دیگر علاقوں میں کیا گیا اور لائٹ ہاؤس، آرام باغ اور اطراف کے علاقوں سے تجاوزات ختم کردی گئیں تاہم یہ آپریشن بھی سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ کرمکمل نہ ہوسکا۔
موجودہ آپریشن اور متاثرین
موجودہ آپریشن میں کامیابی اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ جب متاثرہ خاندانوں کی آباد کاری کا منصوبہ بھی اس میں شامل کیا جائے ، کیوں کہ آئین پاکستان کے مطابق شہریوں کو رہائش کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، کم از کم ایسے متاثرین کو جگہ کی فراہمی ضروری ہے اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ رہائش کے لیے ملنے والے پلاٹ کو 5 سال تک کسی کو بھی فروخت نہ کر سکیں جبکہ وہ ایک محدود مدت میں وہاں گھر بنا کر منتقل ہونے کے پابند بھی ہوں، جہاں بھی انہیں بسایا جائے انہیں پانی ، بجلی اور گیس سمیت تعلیم ،کھیل اور دیگر سہولیات دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔