یہ سیاسی ڈرامہ کب تک چلے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں جاری سیاسی بحران ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ حکمراں سیاسی جماعتوں یعنی پی ڈی ایم اتحاد نے سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کا اعلان کیا اور ملک بھر سے کارکنان بھی جمع کیے گئے۔

اس دھرنے میں جمعیت علمائے اسلا م (ف) نے مرکزی کردار ادا کیا۔

حکومت کو اندازہ ہے کہ ملک بھر میں جاری سیاسی رسہ کشی کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ منظور وسان کا کہنا ہے کہ مئی کے مہینے میں تمام تر معاملات کا نتیجہ ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے آجائے گا۔ اگر ہم اپنا تجزیہ بھی پیش کریں تو زمینی حالات کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ عرصے تک گاڑی اس طرح چل نہیں سکتی کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ملک تکنیکی طور پر ڈیفالٹ کر گیا ہے، اس کو دفتری اعتبار سے کب اعلان کیا جاتا ہے، یہ تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔ حکومت کے پاس ملکی معاملات چلانے کیلئے مناسب رقم نہیں ہے۔

سیاسی رسہ کشی کے باعث ملک کا نقصان تو ہوہی رہا ہے، حکومت کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ وزیرا عظم نے کہہ دیا کہ 3 روز میں سب کو گرفتار کریں، تصاویر بھی سامنے آگئیں۔ ہم نے دیکھا کہ ریڈیو پاکستان اور عسکری عمارات کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ حکومت 400 سے 500 افراد کو گرفتار کرچکی ہےجس پر استغاثہ کا کیس مضبوط کرنا بھی ضروری ہے تاکہ پی ٹی آئی اپنا مؤقف ثابت کرنے میں تگ و دو کرسکے کہ انہیں غلط پکڑا گیا ہے۔ آ ج کل جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ بظاہر عدلیہ کی جانب سے پی ٹی آئی اور عمران خان پر مہربانیوں کی برسات بھی ہورہی ہے۔

عمران خان کا نظریہ تو دنیا کے سامنے ہے لیکن 9 تاریخ کے واقعے کے سلسلے میں یاسمین راشد نے توگاڑی پر چڑھ کر لوگوں کو سمجھایا کہ کور کمانڈر کے گھر پر کس طرح حملہ کرنا ہے تاوقتیکہ ان کی جاری ہونے والی فوٹیج فرانزک ٹیسٹ میں جھوٹی نہ ثابت ہوجائے، اس وقت تک حکومت کے پاس اتنے شواہد موجود ہیں تو اگر استغاثہ انہیں درست طور پر پیش کرے تو سنگین جرائم کی سزاد ی جاسکتی ہے تاہم اگر ثبوت ناکافی ہوئے تو عدالت ملزمان کو رہائی بھی دے سکتی ہے۔

ماضی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز تو موجود تھے لیکن سیاسی جماعتیں اس قدر تباہی و بربادی کی طرف نہیں جایا کرتی تھیں۔ ابھی تو ان تمام تر نقصانات کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، تخمینہ مکمل ہونے پر پتہ چلے گا کہ اربوں روپے کا نقصان تو ہوا مگر اس سے کئی گنا زیادہ پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ۔تاہم جب اس واقعے کی تفتیش کیلئے نگراں حکومت نے جے آئی ٹی بنائی تو اس کی سربراہی کسی ڈی آئی جی کے سپرد کی جانی چاہئے تھی جو نہیں کی گئی۔

ایک ایس پی کے تحت تشکیل دی گئی ٹیم کے اثرات عالمی برادری پر مثبت نہیں ہیں۔ اس حوالے سے عام پاکستانی کو بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب باہر رہنے والے پاکستانی مجھ سے بات چیت کرتے ہیں تو انہیں جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سےراقم الحروف سمیت پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ کسی طرح سیاسی رسہ کشی کا خاتمہ ہو اور عمران خان اور شہباز شریف سمیت سیاسی کشیدگی میں شریک بڑی سیاسی شخصیات باہم دست و گریباں ہونے کی بجائے شیر و شکر ہوجائیں، تاہم گزشتہ کئی برسوں سے ہماری یہ دیرینہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی جبکہ ملک بھر میں نظامِ عدل و انصاف اور معیشت سمیت کسی بھی شعبے کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ جیلوں کا رخ کیجئے تو 98 فیصد عوام وہ ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔

ملک بھر میں جو توڑ پھوڑ ، ایک دوسرے کے خلاف بد زبانی، رسہ کسی اور اجارہ داری کا منظر نظر آتا ہے جبکہ عمران خان کے دور میں فلاں کو جیل بھیج دواور فلاں کو سزا اور فلاں کو پھانسی دے دو جیسے الفاظ سننے کو ملتے تھے۔ اب بھی ایسی ہی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ اب جس طریقے سے سیاست اور اداروں میں تنزلی آتی جارہی ہے، ہمارے پاس کھانے کو بھی مناسب رقم موجود نہیں۔ آئی ایم ایف کے مطالبات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ حالیہ محاذ آرائی کے دوران تقریباً 12 افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں گرفتار ہو گئے، وہ کوئی رہنما نہیں بلکہ عوام الناس ہیں۔

عدالت کا فیصلہ مقدم ہونا چاہئے لیکن جب ان فیصلوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ملزمان کو سزا نہیں ملتی اور سیاسی لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے، بقول شاعر:
خطا کسی سے ہو سرزد سزا کسی کو ملے
مریضِ جبر ہو کوئی دوا کسی کو ملے
عجیب رنگِ جہاں ہے عجب نظامِ حیات
تلاشِ حق ہو کسی کو خدا کسی کو ملے

جن لوگوں نے سیاست کو کاروبار کا روپ دے رکھا ہے، ان کیلئے ہر دور میں ہر چیز تفریحِ طبع کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ ملکی سیاست کی کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے اور اب ایک بڑی چٹان ہمارے سامنے ہے جس سے ٹکرا کر کشتی چکنا چور ہونے کا خدشہ ہے۔ سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ دھمکی دی جارہی ہے کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو پھر وہی حالت دوبارہ ہوگی جو 9مئی کو ہوئی تھی۔

عمران خان کی طرح اگر کسی بھی شخص پر 200 کے لگ بھگ کیسز ہوں گے تو اسے گرفتاری کے خدشات تو لاحق ہونے ہی ہیں۔ ہماری پولیس کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ ایک کیس کے بعد دوسرے پر کارروائی کرتی ہے۔ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں یہ نظیر نہیں ملتی کہ اگر گرفتار کیا گیا تو پھر ملک میں انارکی پھیلے گی۔ ہماری تاریخ میں یہ مثال نایاب ہے کہ لوگ ایک ہی دن میں جا کر کچھ مخصوص اور منتخب مقامات پر حملے کریں اور ان کو جا کر تہس نہس کردیں۔

گزشتہ 75سالوں میں جن قومی اداروں اور حساس تنصیبات پر حملے نہیں ہوئے۔ تاریخی و عسکری عمارات پر جس طریقے سے حملے ہوئے، پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ اس کی جو تصاویر منظرِ عام پر آرہی ہیں اس پر ہمارے دشمن خوش ہورہے ہیں۔ کل کو جب کوئی اور پارٹی کسی بھی معاملے پر حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہے گی تو اس کے پاس پی ٹی آئی کی ایک مثال ہوگی۔

ہمارے ملک کے 64فیصد نوجوانوں نے راستہ دیکھ لیا ہے ، کہیں نہ کہیں وہ اپنی بے روزگاری کی محرومی نکالیں گے۔یہ بلڈنگز ہمارے ٹیکس سے بنی ہیں اور ہماری اپنی ہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی تباہی و بربادی قوم کی بربادی ہے۔

سیاسی کارکنان کی تربیت کے دوران اگر گالم گلوچ کا استعمال کیا جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟عوام کو آپ نے راستہ دکھلا دیا ہےکہ جی ایچ کیو کی طرف رخ کس طرح کیا جاتا ہے؟ حال ہی میں شرجیل میمن نے سپریم کورٹ سے کہا کہ مجھے بلا کر دیکھ لیں۔ میں چیف جسٹس کے پاس ہرگز نہیں آؤں گا۔ یہ تمام تر باتیں پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہورہی ہیں۔ ملک میں تعینات ہر ملک کا سفیر ان تمام تر خبروں کے ٹیلی گرام اپنے ملک کو روزانہ روانہ کر رہا ہے کہ پاکستان میں کیا حالات ہیں۔

اسی طرح ہمارا پوری دنیا میں منفی تاثر قائم ہورہا ہے۔ مسائل ہماری حکومت کے بس سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ مصالحت آمیز رویہ بھی عجیب ہے جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ لوگ کور کمانڈر کے گھر تک بھی نہیں پہنچ سکتے تھے، لیکن مصلحت اپنائی گئی جس کی وجہ سے لوگوں نے وہاں جا کر توڑپھوڑ کی۔

ہر طرف سے طبلِ جنگ بج رہا ہے۔ ایسے میں مسائل کا حل نکالنا حکومت کا کام ہے۔ معاشی مسائل میں الگ اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبات بڑھ رہے ہیں اور اگر انہیں تسلیم کیا جاتا ہے تو عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

سارے حقائق سامنے رکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ تماشا زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ یہ تماشا یہاں روکنا پڑے گا اور مخلصی کے ساتھ بات چیت کرنا ہوگی تاکہ تمام تر مسائل کا حل نکالا جاسکے ۔

Related Posts