اچھے اور بُرے دہشت گرد

مقبول خبریں

کالمز

zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش
zia-1-1-1
دُروز: عہدِ ولیِ زمان پر ایمان رکھنے والا پراسرار ترین مذہب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ٹی ٹی پی نے خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں پاکستانی شہریوں کو دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں کے دوران نشانہ بنایا، پھر بھی اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد کا خاکہ باقی ہے۔

آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی لہر ایک بار پھر شدت اختیار کرگئی ہے اور امن و امان کے معاملات زمینی حقائق کی بنیاد پر درست دکھائی نہیں دیتے۔ ماضی میں بھی ماہرین دہشت گردوں سے مذاکرات کے حق میں نہیں تھے تاہم ان مذاکرات سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکا بلکہ یہ دہشت گردوں کے حوصلوں میں اضافے کا سبب بنا۔

ہم ٹی ٹی پی یا اس کے دیگر ذیلی یا ہم پلہ گروہوں کی بات کریں تو وہ دہشت گردی کی کارروائیوں کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ماضی قریب میں ان گروہوں نے امریکا کو بھی دہشت گردی کی دھمکیاں دیں۔ نتیجتاً امریکا نے 2010 میں ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا اور پھر اگلے ہی برس 2011 میں برطانیہ نے بھی ٹی ٹی پی کو دہشت گرد قرار دیا۔

پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ اب دہشت گردی کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپنائی جائے گی تاہم پاکستان میں کسی ایسے گروہ یا شہری سے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں جس کے ہاتھوں پر کسی اور پاکستانی شہری کا خون نہ لگا ہو اور انہوں نے کسی دہشت گرد گروہ میں چاہے شمولیت ہی کیوں نہ اختیار کر رکھی ہو۔ ان سے بات چیت ہوسکتی ہے۔

تاہم ٹی ٹی پی کے پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے والے افراد سے مذاکرات نہیں ہوسکتے جو ماضی میں بھی ناکام رہے اور ایسا مستقبل میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے بہت اچھا فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے گی جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر ایکشن کی توقع کی جاسکتی ہے۔

اگر ہم بین الاقوامی تاثر کی بات کریں تو ہیلری کلنٹن جب کانگریس کی خارجہ کمیٹی کے سامنے گواہی دے رہی تھیں تو انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اگر ہم نے طالبان کو ان کے حال پر چھوڑا تو افغانستان میں دوبارہ دہشت گردی اور پاکستان کے حالات دگرگوں ہوجائینگے۔

تاہم امریکا 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے بھاگ نکلا اور پھر وقت نے وہ دن بھی دیکھا کہ ان کے پاس مجاہدین کو منظم کرنے کیلئے کوئی پلان نہیں تھا جس کی وجہ سے مجاہدین دھڑوں میں بٹ گئے اور ٹی ٹی پی اور افغان طالبان سمیت مختلف ناموں سے دوبارہ دہشت گردی کرنے لگے۔

Related Posts