کیا گلگت بلتستان کو آئین کے تحت ملک کا پانچواں صوبہ بنایا جاسکتا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا گلگت بلتستان کو آئین کے تحت ملک کا پانچواں صوبہ بنایا جاسکتا ہے؟
کیا گلگت بلتستان کو آئین کے تحت ملک کا پانچواں صوبہ بنایا جاسکتا ہے؟

تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے عملی طور پر تو گلگت بلتستان کو ایک صوبہ قرار دے دیا ہے تاہم آئینی لحاظ سے گلگت بلتستان کو اب تک صوبہ قرار نہیں دیا جاسکا۔ 

گلگت بلتستان کی سیاسی جماعتوں کے مطابق گلگت بلتستان آرڈر 2018ء نافذ تو ہوچکا، تاہم یہ آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟

گلگت بلتستان کی تاریخی و دفاعی حیثیت 

تقسیمِ ہند کے وقت گلگت بلتستان جموں و کشمیر میں شامل تھا۔ سن 1947ء کے بعد سے طویل عرصے تک گلگت بلتستان ایک گمنام علاقہ رہا جسے شمالی علاقہ جات کا نام بھی دیا گیا، تاہم زرداری حکومت نے گلگت بلتستان کو نیم صوبے کی حیثیت دی۔

قیامِ پاکستان کے بعد گلگت بلتستان میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز کا نفاذ عمل میں لایا گیا جبکہ 70ء کی دہائی میں گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کے نام سے علیحدہ انتظامی یونٹ بنایا گیا۔

مذکورہ یونٹ میں گلگت ایجنسی، ضلع بلتستان اور متعدد سابقہ ریاستیں شامل تھیں جن میں ہنزہ اور نگر کے نام آتے ہیں۔ سن 2009ء میں سابق صدر آصف علی زرداری نے خود گورننس آرڈیننس نافذ کیا اور خطے کا نام گلگت بلتستان رکھا گیا۔ 

محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جس کی سرحدیں 4 ممالک سے ملتی ہیں اور پاکستان نے ہمسایہ ملک بھارت کے خلاف 3 جنگیں اسی علاقے میں لڑیں جن میں جنگِ 1948ء، کارگل جنگ اور سیاچن جنگ شامل ہیں۔

دفاعی اعتبار سے گلگت بلتستان ایک اہم علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاک چین دوستی کی عظیم مثال شاہراہِ ریشم یہیں سے گزرتی ہے۔ سن 2009ء میں گلگت بلتستان میں پہلی بار انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیّد مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے وزیرِ اعلیٰ سن 2009ء میں ہی منتخب ہوئے جس کے بعد یہاں سیاست پروان چڑھنے لگی۔ 

آبادی، محلِ وقوع اور دیگر معلومات 

مجموعی طور پر گلگت بلتستان کی آبادی سن 2013ء کے اعدادوشمار کے مطابق 12 لاکھ 49 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جبکہ رقبہ 72 ہزار 971 مربع کلومیٹر ہے۔

اِس علاقےمیں زیادہ تر بلتی اور شینا زبانیں بولی جاتی ہیں۔ گلگت اور بلتستان کے علاوہ دیامیر ڈویژن بھی گلگت بلتستان میں ہی شامل ہے۔ افغانستان کی واخان کی پٹی گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں موجود ہے۔

شمال مشرق میں چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ اور ایغور کا علاقہ موجود ہے جبکہ جنوب مشرق میں مقبوضہ جموں و کشمیر واقع ہے۔ جنوب میں آزاد جموں و کشمیر جبکہ مغرب میں کے پی کے واقع ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسا پہاڑی علاقہ ہے جہاں 50 ایسی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 7 ہزار میٹر سے زائد ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور کوہِ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے یہیں ملتے ہیں۔ کے ٹو کی چوٹی اور دُنیا کے 3 سب سے بڑے گلیشیئرز بھی گلگت بلتستان میں ہیں۔ 

قانونی ماہرین کی رائے

ویسے تو گلگت بلتستان کو ملک کا 5واں صوبہ بنانے کی باتیں زباں زدِ عام ہیں تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلۂ کشمیر اب تک حل طلب ہے جس کا گلگت بلتستان سے بڑا گہرا تعلق ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے حل نہیں  ہوتا، گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ نہیں بنایا جاسکتا جبکہ محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ خطہ کشمیر سے منسلک ہے۔ 

عالمی تنازعات 

ماضی میں شمالی علاقہ جات کہلانے والا گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ انتظام ایسا خطہ ہے جس پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ چین کا بھی تنازعہ ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے تک چین اور بھارت کے درمیان گلگت بلتستان کے ایک حصے پر تنازعہ رہا، چین کی فوجیں لداخ میں گھس گئیں اور بھارت منہ دیکھتا رہا۔

بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کے مفادات لداخ اور گلگت بلتستان سے وابستہ ہیں جن کی بنیاد اِس علاقے کی دفاعی اہمیت ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ کوہ پیمائی اور ٹریکنگ کے لیے دنیا بھر سے سیاح یہاں کا رُخ کر رہے ہیں جس سے یہ خطہ تینوں ممالک کیلئے مزید اہم ہوگیا ہے۔ 

عوامی مطالبہ اور مسئلۂ کشمیر کا مقدمہ

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست آئین کے تحت عوامی آراء کو اہمیت دینے کی پابند ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کا ایک الگ 5واں صوبہ بنا دیا جائے تاہم اِس مطالبے پر عمل درآمد میں حکومت کو کچھ مجبوریاں درپیش ہیں۔

انتظامی اعتبار سے گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کا حصہ سمجھا جاتا ہے جسے اگر 5ویں صوبے کی حیثیت دے دی گئی تو عالمی سطح پر مسئلۂ کشمیر کامقدمہ بری طرح متاثر ہوگا۔

غور کیا جائے تومقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ بھارت نے کیا سلوک کیا؟ گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کردی، اگر پاکستان بھی گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دیتا ہے تو بھارت اور اس کے حامی ممالک معاملے کو کوئی اور رنگ دے سکتے ہیں۔

وفاقی حکومت اور پاکستان کے عوام گلگت بلتستان کے عوام کے جذبات سمجھ سکتے ہیں کیونکہ پانچویں صوبے کا درجہ پانا عوامی مسائل کے حل کی اہم امید ہے، تاہم عالمی سطح پر حکومتی مجبوریاں اور پالیسی معاملات اِس مسئلے کے حل میں آڑے آرہے ہیں جس پر افہام و تفہیم کی سخت ضرورت ہے۔ 

تبدیلی کی آخری امید

وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف گلگت بلتستان کے عوام بے حد مثبت سوچ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں جو انہیں تبدیلی کی آخری امید نظر آتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے چند روز قبل بیان دیا کہ وزیرِ اعظم عمران خان جلد ہی گلگت بلتستان کا دورہ کریں گے۔

علی امین گنڈا پور کے بیان کے مطابق پاکستان گلگت بلتستان کو جلد ہی تمام آئینی حقوق کے ساتھ ایک مکمل صوبہ بنا دے گا جہاں عوامی ضروریات آسانی سے پوری ہوسکیں۔

بیان کے مطابق گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھرپور نمائندگی دی جائے گی  جس کیلئے حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرچکی ہے۔ 

Related Posts