جنرل یحییٰ خان کی 20ویں برسی اور ملک میں صدارتی نظام کیلئے صدائیں، آگے کیا ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جنرل یحییٰ خان کی 20ویں برسی اور ملک میں صدارتی نظام کیلئے صدائیں، آگے کیا ہوگا؟
جنرل یحییٰ خان کی 20ویں برسی اور ملک میں صدارتی نظام کیلئے صدائیں، آگے کیا ہوگا؟

وطنِ عزیز پاکستان پر کم و بیش 40 برس تک فوجی جرنیلوں نے حکمرانی کی جن میں سے جنرل یحییٰ خان ایک اہم اور انتہائی مشہور و معروف نام ہیں۔ آج ان کی 20ویں برسی کے موقعے پر حالیہ دور میں لگائی جانے والی صدارتی نظام کی صدائیں خاصی بلند محسوس ہوتی ہیں اور ایک عام انسان یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ آگے کیا ہوگا؟

پاکستان میں جمہوری نظامِ حکومت بلا شبہ عسکری اور صدارتی نظام کے مقابلے میں زیادہ قابلِ قبول ہے تاہم ایک مخصوص طبقے نے ہر دور میں جب جب جمہوریت ناکام نظر آئی یا حکمرانوں پر بدعنوانی کے الزامات لگے، صدارتی نظام کیلئے صدائیں بلند کرنا شروع کردیں۔

سوال یہ ہے کہ جنرل یحییٰ خان سمیت فوجی جرنیلوں کا وطنِ عزیز پاکستان پر اقتدار کیسا گزرا؟ کیا انہوں نے جمہوریت کے مقابلے میں بہتر حکومت کی؟ کیا جمہوری و صدارتی نظام ہی ملک کے حق میں بہتر ہے یا صرف جمہوری و پارلیمانی نظام جس میں زیادہ تر اختیارات ایک وزیرِ اعظم کو دئیے جاتے ہیں۔ آئیے تمام سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔

جنرل یحییٰ خان کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

سن 1966ء میں بری فوج کے سربراہ بننے والے جنرل آغا محمد یحییٰ خان 4 فروری 1917ء میں پیدا ہوئے جنہیں آرمی چیف بننے کے 3 سال بعد ملک کی صدارت کا بھی موقع میسر آگیا۔

سن 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ ہوا یعنی مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا جو ملکی تاریخ کا ایک بہت بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے۔ 20 دسمبر 1971ء میں اِس جرم کی پاداش میں جنرل یحییٰ خان نے طویل عرصے تک نظر بندی کی صعوبت برداشت کی۔

مرحوم جنرل یحییٰ خان کی جنم بھومی صوبہ پنجاب کا شہر چکوال ہے۔ یحییٰ خان کے کل 7 بہن بھائی تھے۔ آپ کے بیٹے علی یحییٰ کے مطابق جنرل یحییٰ خان کے آباو اجداد کا تعلق افغانستان سے ہے۔

گجرات سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوئے اور 1938ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی متحرک رہے۔ 1945ء کے بعد اسٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر تعینات کیے گئے۔

پاکستان کے قیام کے بعد جنرل یحییٰ خان پاک فوج میں ترقی کی منازل طے کرنے لگے۔ سن 1962ء میں انہیں ایسٹ پاکستان میں گیریژن آفیسر کمانڈنگ تعینات کیا گیا۔ انہوں نے سن 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ہلالِ جرات حاصل کرکے اپنے جذبۂ حب الوطنی کو ثابت کردیا۔

ستمبر سن 1966ء میں جنرل موسیٰ خان ریٹائر ہوئے تو یحییٰ خان پاک فوج کے کمانڈر انچیف مقرر کیے گئے۔ 65ء کی جنگ کے بعد سے ہی طلباء کی ملک گیر تحریک چلی جو معاہدۂ تاشقند کے خلاف تھی۔

نومبر 1968ء میں بحالئ جمہوریت کے نام پر چلنے والی تحریک خونریزہنگاموں میں تبدیل ہو گئی اور مارچ 1969ء میں یحییٰ خان کو علم ہوا کہ ایوب خان ملک پر مزید حکمرانی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

یہ صورتحال دیکھتے ہوئے جنرل یحییٰ خان نے 23 مارچ 1969ء کو ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری کر لی، 25 مارچ کو ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی کا فیصلہ قوم کو  سنایا اور پھر یحییٰ خان نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

ون یونٹ کے تحت آنے والے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت 30 جون کو بحال کی گئی۔ بہاولپور کو پنجاب اور کراچی کو سندھ میں شامل کیا گیا اور مالاکنڈ ایجنسی کا قیام بھی عمل میں آیا۔ ا

قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ستمبر اور دسمبر 1970ء میں ہوئے اور 16 دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج نے قبضہ کر لیا جس کے بعد فوجی حکومت کے خلاف ملک گیر مظاہرے شروع ہوئے۔

پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو سن 1971ء میں اقتدار ملا۔ یحییٰ خان کو سن 1972ء میں نظر بند کردیا گیا جس سے رہائی انہیں 5 سال کی طویل مدت کے بعد سن 1977ء میں ملی۔

نظر بندی کے دوران یحییٰ خان کی صحت خراب ہوچکی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے نظر بندی سے نجات تو دے دی تھی مگر یحییٰ خان  نے گوشہ نشینی ہی پسند کی اور سن 1980ء میں خاموشی سے جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔

سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار کون؟

اگر ہم غور کریں تو سقوطِ ڈھاکہ کے وقت ملک پر حکمرانی جنرل یحییٰ خان کی تھی لیکن اُدھر تم اور اِدھر ہم کے نعرے کا الزام پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو پربھی لگایا جاتا ہے۔

دوسری جانب جنرل یحییٰ خان کچھ ہی عرصے کیلئے اقتدار میں آئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کیلئے کافی عرصہ قبل ہی کام شروع کردیا تھا۔ دونوں رہنماؤں کی حب الوطنی پر شک نہیں کیاجاسکتا۔

لہٰذا یہ سوال ہر دور میں بار بار کیا گیا کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا ذمہ دار کون ہے؟ لیکن اس کا درست جواب آج تک نہ دیا جاسکا۔ 

جمہوریت اور بدعنوانی کے الزامات 

تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت آج مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر بدعنوانی کے جو الزامات لگاتی ہے، یہ نئے نہیں ہیں۔ ہر بار جب جمہوری رہنماؤں کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو ان پر سنگین بدعنوانی کے الزامات لگے۔

مثال کے طور پر ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو وقت کے صدر نے ان پر سنگین بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے جو آج تک ثابت نہیں کیے جاسکے۔ 

صدارتی نظام کی صدائیں 

وزیرِ اعظم عمران خان آج ایک کمزور جمہوری حکومت کے سربراہ ہیں جو اتحادی جماعتوں کی رضامندی سے قدم آگے بڑھاتی ہے تو ٹھیک، بصورتِ دیگر ان کیلئے مشکلات پیدا کردی جاتی ہیں۔

ایسے میں ایک مخصوص طبقے نے یہ نعرہ لگانا شروع کیا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو ملک میں صدارتی نظام لانے کیلئے راہ ہموار کرنی چاہئے جیسا کہ امریکا میں رائج ہے۔ امریکا پر کسی وزیرِ اعظم کی بجائے صدر ٹرمپ کی حکمرانی ہے۔

آگے کیا ہوگا؟

مستقبل کا حال ربِ ذوالجلال کی بابرکت ذات کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نظامِ جمہوریت کو ملک میں پنپنے کا اتنا بھی وقت نہیں دیا گیا جتنا کہ آرمی حکومت کے دوران حاصل رہا۔ ایک صدر نے دس دس سال تک حکومت کی جس کی بہترین مثال سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے سن 2000ء سے لے کر 2010ء تک حکومت کی اور بڑے بڑے اقدامات اٹھائے تاہم ملک کا مستقبل جمہوریت ہی تھی جو اقتدار پر قابض ہو کر رہی۔

آج پاکستان میں جمہوریت کو ختم کرکے آرمی چیف کو اقتدار میں لانے کی باتیں کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ عسکری قیادت کاکام ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ ملک مزید کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Related Posts