صنفی امتیاز جسے جنسی عدم مساوات کا نام بھی دیا جاسکتا ہے، پاکستان کا قومی مسئلہ بنتا جارہا ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری آبادی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، معاشی ترقی اس کا ساتھ دیتی دکھائی نہیں دیتی۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق پر کام بھی ہوا تاہم صنفی امتیاز کو خاطر خواہ حد تک کم نہیں کیاجاسکا۔ خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام سے کم از کم ایک صدی پیچھے ہیں جہاں مرد 72اعشاریہ 8فیصد جبکہ خواتین صرف 57اعشاریہ 5فیصد شرحِ خواندگی رکھتی ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران مردوں اور خواتین کے مابین تعلیم میں روا رکھا جانے والا صنفی امتیاز کم ضرور ہوا، تاہم اس عمل کی رفتار دھیمی اور سست رہی ہے۔ معاشی میدان میں لیبر فورس میں خواتین کی شرکت صرف معمولی حد تک ہی بہتر ہوئی۔
گزشتہ برس خواتین کی لیبر فورس میں شرکت مردوں کی شرحِ 82اعشاریہ 7 کے مقابلے میں 25اعشاریہ 4فیصد تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کو معاشی مواقع تک محدود رسائی دی جاتی ہے جس سے ان کی مالی آزادی اور خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔
اگر ہم سیاسی نمائندگی کی بات کریں تو خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ دار بنانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے اس شعبے میں کسی قدر ترقی کی ہے۔ رواں برس قومی اسمبلی کی کل نشستوں میں سے 20فیصد اور سینیٹ میں 17فیصد نشستیں ہیں۔
یوں صنفی اعتبار سے خواتین کو جمہوری نظام میں بہت حد تک نمائندگی حاصل ہے، تاہم اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ صنفی تشدد کی بات کی جائے تو یہ ایک انتہائی سنگین اور حساس نوعیت کا مسئلہ ہے اور گزشتہ روز ہی ایسے ایک مجرم کو سزائے موت سنائی گئی۔
سارہ انعام قتل کیس کے مجرم شاہنواز امیر کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا گیا، تاہم ملزم کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں سزائے موت کے خلاف اپیل کا اختیار حاصل ہے جبکہ پاکستان میں صنفی تشدد کی یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے۔
نور مقدم کیس ہو، زینب کیس ہو یا پھر سارہ انعام کیس، تمام ہی معاملات میں خواتین یا بچیوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں 2023 میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کم و بیش 10فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ضروری ہے کہ ہم اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو تشدد کا نشانہ بننے سے بچائیں کیونکہ اس تشویشناک رجحان سے معاشرہ تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ صحت کے میدان میں بھی خواتین کو صنفی مسائل کا سامنا ہے۔
صحت کے میدان میں رواں برس زچگی کے دوران خواتین کی شرحِ اموات 186 فی لاکھ زندہ پیدائشیں ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ ضروری ہے کہ حکومتِ وقت ان تمام تر مسائل پر توجہ دے اور خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے مزید اقدامات اٹھائے جائیں۔