صنفی امتیاز ہر معاشرے کا حصہ رہا ہے اور آج اب بھی کسی نہ کسی صورت میں دنیا کی ہر ثقافت میں موجود ہے تاہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نےصنفی امتیاز ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی اور وہ کامیاب ہوئے ۔صنفی امتیاز ہماری جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے اس کے باوجود پاکستان میں صنفی امتیاز کے مسئلے کو سرے سے مسئلہ ہی نہیں مانا جاتا۔
پاکستان کی خواتین کا کل آبادی میں تناسب 52فیصد کے قریب ہے مگر صرف 3 سے 5 فیصد خواتین عملی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
ملک میں آج بھی سول سروس میں ٹاپ کرنے والی لڑکیوں کی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ اور پولیس سروس میں حوصلہ شکنی کی جاتی ہےجبکہ وہ کسی صورت بھی مردوں کی ذہانت و متانت سے کم نہیں ۔
ایک طرف خواتین کی تخلیقی اور انتظامی صلاحیتوں کو مردوں کو تسلیم کرنے میں دشواری ہے تودوسری طرف ان پر ذہنی اور جسمانی تشد دکا معاملہ کسی صورت حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
سعودی عرب جیسے قدامت پسند ملک میں بھی ان خواتین کے حوالے سے دن بدن تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ،ریستورانوں میں مردوں اور خاندانوں کے لیے الگ الگ حصوں کی شرط ختم کردی ہے۔
سعودی عرب میں طویل عرصے سے خواتین پر شادی، تجدید پاسپورٹ اور ملک چھوڑنے کے لیے سرپرست سے اجازت کی پابندی تھی تاہم اب سعودی خواتین سرپرست کے بغیر بیرون ملک جا سکتی ہیں، سعودیہ میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت بھی ایک مستحسن اقدام گردانا جاتا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جاری کردہ عالمی جنسی گیپ انڈیکس 2020کے مطابق پاکستان جنسی مساوات کے لحاظ سے ایک 153 ممالک میں سے 151ویں نمبر پر موجود ہے۔جنوبی ایشیاء میں بنگلہ دیش اور نیپال کے مقابلے میں پاکستان کا نمبر ساتواں ہے جبکہ عالمی درجہ بندی میں دونوں ممالک کا پچاسواں اور سونواں نمبر ہے۔
پاکستان میں خواتین مردوں کے ایک گھنٹے کے مقابلہ میں 11 گھنٹے بلامعاوضہ گھریلو کام کرتی ہیں اور یہ تناسب دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں پایا جانے والا صنفی امتیاز افریقہ کے بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے۔
مصر اور عمان میں خواتین بالترتیب 9اور ڈھائی گھنٹے گھریلو مشقت اٹھاتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلجیم میں یہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہے جہاں خواتین مردوں سے صرف آدھ گھنٹہ زیادہ کام کرتی ہیں۔
آج پاکستان میں عورت پہلے کے مقابلے میں زیادہ آزاد اور خود مختار ہے، اسے خانگی معاملات اور پیشہ ورانہ زندگی میں نہ صرف اہمیت دی جاتی ہے بلکہ کسی حد تک وہ فیصلہ ساز بھی ہےاس کے باوجود لڑکیوں کیساتھ امتیاز سلوک بھی عام ہے۔
آج پیدا ہونے کے بعد نہیں بلکہ جدید مشینوں سے ذریعے جنس کا پتا لگاکر لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے رحم مادر میں ہی قتل کرنے کے واقعات بھی معاشرے کاحصہ ہیں۔
صنفی امتیازکو یکدم راتوں رات ختم کرنا مشکل ہے تاہم مسلسل کوشش سے صنفی امتیاز کے معاملے پر قابو پایا جاسکتا ہے اورصنفی امتیاز کے خاتمے سے ہی مہذب معاشرہ قائم ہوگا ۔