فرانس میں ایک بار پھر آزادئ اظہار کے نام پر گستاخانہ خاکے سامنے لائے گئے اور چارلی ایبڈو کے بعد یہ خاکے 2 روز قبل یعنی جمعے کو سرکاری عمارات پر آویزاں کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا۔
جیسے ہی گستاخانہ خاکوں کی خبر سامنے آئی، دُنیا بھر کے مسلمان اس پر غم و غصے کا اظہار کرنے لگے۔ پاکستان میں آج فرانسیسی کمپنیوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ گیا، سوشل میڈیا صارفین نے اسے ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا ہے۔
جب بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلمان احتجاج کرتے ہیں، انہیں آزادئ اظہار کے نام پر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، آئیے آج یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آزادئ اظہار کے نام پر گستاخانہ خاکے کیوں شائع کیے جاتے ہیں؟ اور فرانسیسی کمپنیوں کے بائیکاٹ سے کیا یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟
گستاخانہ خاکے اور مسلمانوں کا ردِ عمل
فرانسیسی سرکاری عمارات پر گستاخانہ خاکے آویزاں کیے جانے کے بعد سے کئی ممالک نے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ او آئی سی نے بھی کہا کہ مسلمانوں کے جذبات کو ایک نظام کے تحت بار بار مجروح کیا جاتا ہے۔
کویت میں فرانسیسی مصنوعات مثلاً کارٹیئر، شنیل، رینالٹ، ڈیور اور لورئیل سمیت متعدد معروف کمپنیوں کی مصنوعات ہٹا کر فرانس کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر تم گستاخانہ خاکوں کی ترویج میں مصروف رہو گے تو ہم بھی تمہیں مالی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ تمہاری عالمی ساکھ تباہ کرسکتے ہیں۔
صدر ایمانویل میکرون کا متعصبانہ رویہ اور ترکی کا منہ توڑ جواب
فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی مذمت سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ چارلی ایبڈو نامی میگزین کا اپنا فیصلہ ہے۔ اسلام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک بحران میں گھرا ہوا مذہب ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مسمان فرانس میں علیحدگی پسند جذبات بھڑکانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردگان نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کو اپنا ذہنی علاج کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایمانویل میکرون کو مسلمان اور اسلام سے کیا مسئلہ ہے؟ انہیں دماغی علاج کی ضرورت ہے۔ بھلائی کوئی صدر ملک میں رہنے والی مذہبی اقلیت کے لاکھوں انسانوں کے ساتھ ایسا رویہ کیسے رکھ سکتا ہے؟
خاکوں کی اشاعت اور مسلم دشمنی کی نئی لہر
مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ عروج پر ہے۔ ایک مقامی اسکول کے بچوں کو توہین آمیز خاکوں کر پرچار کرنے والے استاد کو کسی مسمان نے قتل کردیا جس کے بعد ایمانویل میکرون کے بیان سے فرانس میں مسلم دشمنی شروع ہوگئی۔
کئی مساجد بند کردی گئیں اور مسلمانوں پر نفرت انگیز حملوں کے باعث مسلمان ممالک اور فرانس سمیت متعدد ممالک میں مسلمان متعصبانہ رویے اور آزادئ اظہار کے نام پر گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
نفرت انگیز حملے، متعصبانہ گفتگو اور اشتعال انگیزی عروج پر ہے۔ فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو بھی رجب طیب اردگان کے بیان کے بعد واپس بلا لیا۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر فرانس اپنے صدر کے خلاف ترک ہم منصب کی لب کشائی برداشت نہیں کرسکتا تو مسلمان اپنے نبی ﷺ کی توہین کیسے برداشت کریں؟
آزادئ اظہار اور گستاخانہ خاکوں کا تعلق؟
ہر ملک میں صحافیوں کو آزادئ اظہارِ رائے کے نام پر کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں مذہبی جذبات کا مذاق نہیں اڑایا جاتا، لیکن فرانس میں ایسا ہورہا ہے۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادئ اظہار سے منسلک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مذہب مسلمانوں سمیت دُنیا کے ہر انسان کیلئے دیگر ترجیحات سے بالاتر ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو روکنا چاہتے ہیں اور اسلام میں توہینِ رسالت کی سزا موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ایسے میں جب کوئی مسلمان ایسے کسی گستاخ کو قتل کر دیتا ہے تو مغرب میں کہا جاتا ہے کہ آزادئ اظہار کا قتل کیا جارہا ہے۔ یہ بے حد خطرناک عالمی سازش ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔
مقاصد اور عزائم
کوئی بھی کام بے مقصد نہیں ہوتا، خاص طور پر فرانس جیسے ملک سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہیں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کے شدید ردِ عمل کے بارے میں پہلے سے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ ایسا سمجھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔
اس لیے فرانس اور ناروے سمیت ایسے تمام ممالک جو گستاخانہ خاکوں کی ترویج کرتے ہیں اور توہینِ رسالت جیسے اقدامات اٹھا کر مسلمانوں میں غم و غصے کو فروغ دینا چاہتے ہیں، ان کا ضرور کوئی نہ کوئی مقصد اور عزائم ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغرب یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایسے افراد کا پتہ چل جائے جو اسلام کیلئے مر مٹنے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں، تاکہ ان کے خلاف جنگ شروع کی جاسکے، تاکہ باقی جو بچ جائیں، ان پر کھل کر حکومت کی جاسکے۔ مسلمانوں کو ایسے ہی تمام امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا فرانسیسی کمپنیوں کا بائیکاٹ مسئلے کا حل ہے؟
بلاشبہ فرانسیسی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرکے مسلمان فرانس سمیت دیگر ممالک پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور انہیں یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو حضور ﷺ کی توہین سے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور وہ اپنے نبی ﷺ کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
یہ گستاخانہ خاکے کوئی پہلی بار تو شائع نہیں ہوئے، تو سوال یہ بھی ہے کہ بار بار ایک ہی بات کیوں دُہرائی جاتی ہے؟کیا اِس کا مقصد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بار بار ٹھیس پہنچا کر انہیں دنیا بے زار یا دہشت گرد بنانا ہے؟
جب تک مسلمان اپنے نبی ﷺ کی عزت و ناموس کا تحفظ کرنے کیلئے ایک پیج پر جمع نہیں ہوتے، مغرب کو توہینِ رسالت پر سزا دینے کی بات بعید از قیاس محسوس ہوتی ہے، کیونکہ چند ممالک مل کر فرانس اور ناروے سمیت دیگر عالمی طاقتوں کو ٹکر نہیں دے سکتے۔
مسئلے کے بہت سے حل ہوسکتے ہیں اور کمپنیوں کا بائیکاٹ ہی اِس مسئلے کا واحد حل نہیں۔ فرانس اور ناروے سمیت گستاخانہ خاکوں،مسلم دشمنی اور فساد پھیلانے والے ممالک کے خلاف مسلم امہ کو مل کر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔