آئین پاکستان، 1973 کے آرٹیکل 19 کے مطابق ہر شہری کو آزادی اظہار اور پریس کو آزادی کا حق حاصل ہوگا، جوکچھ پابندیوں کے ساتھ مشروط ہے، جس میں قانون کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی مواد اسلام، ریاست اور دفاع کے خلاف نہ ہو، یا پاکستان یا اس کے کسی بھی حصے کی سا لمیت، سلامتی، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، عوامی نظم و ضبط، توہین عدالت یا جرم کی ترغیب کی ہر گز اجازت نہیں ہوگی۔
اظہار رائے کی آزادی کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی بنیاد تسلیم کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اظہار رائے کی آزادی شہریوں کو جمہوریت کے کام میں مؤثر انداز میں حصہ لینے کی یقین دہانی بھی کراتا ہے۔ لیکن کیا ہم آئینی ضمانتوں کے باوجود آزادی اظہار رائے سے مستفید ہورہے ہیں؟
فریڈم نیٹ ورک کے ذریعے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کو ہمیشہ چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کم از کم 91 مقدمات جن میں سات صحافیوں اور ایک بلاگر کا قتل، میڈیا اور اس کے قلم کاروں کے خلاف حملوں اور دیگر خلاف ورزیوں سمیت، پاکستان میں ایک سال کے دوران مئی 2019 اور اپریل 2020 کے درمیان درج کئے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں خوف و ہراس کی بڑھتی ہوئی فضا کی نشاندہی کی گئی ہے، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور معلوماتی ماحول تک رسائی پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔آزادی اظہار رائے کو سنسرشپ کے مختلف طریقوں سے دبایا جارہا ہے، جن میں قتل، دھمکیاں اور ہراساں کرنا شامل ہے، جس کے نتیجے میں عوامی مفاد کی صحافت کا خاتمہ ہورہا ہے۔ یہ وہ صحافت نہیں ہے جو ہمیں پڑھائی گئی تھی؟
صحافیوں نے اپنے ساتھ جاری ظلم و ستم کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور اب انہوں نے خود پر سنسرشپ نافذ کرلی ہے،یہ اظہار رائے کی آزادی کا ایک طاعون ہے اور لوگوں کو ان کے معلومات کے حق سے محروم کرتا ہے۔ چینلز کسی بھی وقت‘آف ایئرکر دیئیجاتے ہیں، اخبارات کی ترسیلات میں خلل پڑتا ہے اور بعض اوقات صحافی غائب کردیئے جاتے ہیں۔
آزادی اظہار برائے آرٹیکل، بہت سارے دیگر مضامین کی طرح صرف کاغذ پر آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن حقیقت میں ہم ’معقول پابندیوں‘ کے سبب نہیں بلکہ غیر معقول پابندیوں کی وجہ سے دبے ہوئے ہیں۔ اس آفاقی مسئلے کو حل کرنے کے پاکستانی حکومت کو عوامی مفاد کو مد نظر رکھنا چاہئے، ناانصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے، اور ایک پرامن معاشرے کو ایک جامع ترقیاتی نقطہ نظر کے ذریعے استوار کرنا چاہئے۔