پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق بھارت سے کہیں زیادہ محفوظ ہیں لیکن حال ہی میں آرزو نامی ایک مسیحی لڑکی کا کیس سامنے آیا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے آج ایک اہم حکم جاری کیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے مطابق یہ حکم دیا کہ اغواء کی گئی مسیحی لڑکی آرزو کو 5 روز کے اندر اندر بازیاب کرا کر شیلٹر ہوم منتقل کیا جائے جبکہ پاکستان میں کسی اقلیتی شہری کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرانے کا الزام پہلی بار عائد نہیں کیا گیا۔
اِس بات سے قطعِ نظر کہ آرزو کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرایا گیا یا نہیں ، ہم آج جبری طور پر مذہب کی تبدیلی ، اقلیتوں کے حقوق اور اس معاملے پر متوقع معاشرتی کردار پر غور کریں گے۔
مذہب کی جبری تبدیلی کا اخلاقی پہلو
اخلاقی اعتبار سے کسی انسان کا مذہب جبری طور پر تبدیل کروانا کسی صورت قابلِ قبول نہیں کیونکہ یہ بنیادی انسانی فطرت کے خلاف ہے۔
انسان زبردستی کوئی مذہب تو کیا کسی معاشرتی روایت یا قانونی تقاضے کو بھی پورا کرنا پسند نہیں کرتا، اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان چاہتا ہے کہ وہ جو بھی کرے، اپنی خوشی اور رضامندی سے کرے۔
اسلام کیا کہتا ہے؟
قرآنِ پاک نے واضح الفاظ میں لااکراہ فی الدین فرمایا جس کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، یعنی جو شخص اپنی خوشی سے ایمان لانا چاہے، اسے خوش آمدید کہیں اور جو کفر یا کسی اور مذہب پر چلنا چاہے، اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
ایک روایت کے مطابق انصار کے قبیلے میں بنو سالم بن عوف سے تعلق رکھنے والا ایک شخص موجود تھا جس کے 2 بیٹے عیسائی تھے۔ باپ مسلمان ہوگیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو بھی زبردستی مسلمان کرنا چاہا۔
حضورِ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس شخص نے اجازت چاہی کہ میں جبری طور پر اپنے بچوں کو مسلمان کرنا چاہتا ہوں جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لااکراہ فی الدین جس سے کسی بھی شخص کو جبری مسلمان کرنا ناجائز قرار پایا۔
پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق
وطنِ عزیز پاکستان میں اقلیتوں کو نہ صرف تمام مسلمہ شہری حقوق حاصل ہیں بلکہ وہ ان سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ اقلیتیں رہن سہن، میل جول، حفاظت، نقل و حمل، جائیداد بنانے، بستی بسانے، خریدوفروخت اور دیگر حقوق حاصل کر رہی ہیں۔
اقلیتوں کو تعلیمی اداروں میں داخلہ، سرکاری ملازمتیں، سیکورٹی اداروں میں افسری ، کوٹے اور میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں اور تعلیم کیلئے خصوصی اقلیتی وظائف بھی دئیے جاتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ اقلیتیں اپنے مذہب کی تشہیر کا پورا حق رکھتی ہیں، مذہبی لٹیرچر، مقدس کتابوں کی اشاعت، خریدوفروخت اور مذہبی ادارے تک چلانے کی کھلی اجازت رکھتی ہیں۔ کلیسیاء، مندر، مرگھٹ اور قبرستانوں کیلئے زمینیں بھی مخصوص ہیں۔
سیاسی اعتبار سے بھی اقلیتی شہری ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اندرونِ سندھ میں جہاں جہاں ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہے، وہاں مسلمان گائے ذبح نہیں کرتے جبکہ خنزیر کا گوشت عام دستیاب ہے۔ شہروں میں شراب خانے بھی موجود ہیں جن سے بعض اوقات مسلمان بھی خریدوفروخت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
مذہب جبری طور پر تبدیل کرنے کا الزام
ملک بھر میں اقلیتوں کی طرف سے مسلمانوں پر مذہب جبری طور پر تبدیل کرنے کا یہ الزام نیا نہیں ہے۔ یہ فیصلہ عدالت پر چھوڑتے ہیں کہ الزام درست ہے یا غلط، لیکن گزشتہ برس بھی ایک ہندو خاتون شریمتی میگھواڑ کو اغواء کیا گیا۔
بازیابی کے بعد رواں برس ہی شریمتی میگھواڑ نے الزام عائد کیا کہ میرا مذہب جبری طور پر نہ صرف تبدیل کیا گیا بلکہ مجھے جسم فروشی پر بھی مجبور کیا گیا۔ بعض علماء پر بھی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ مذہب جبری طور پر تبدیل کراتے ہیں۔
ڈہرکی کی درگاہ بھرچونڈی کے گدی نشین کے بھائی میاں مٹھو پر بھی یہ الزام لگا اور عمر کوٹ کے پیر ایوب سرہندی پر بھی یہ الزام لگایا گیا لیکن دونوں نے کہا کہ خواتین کی مرضی سے ہی ان کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔
تبدیلئ مذہب میں زبردستی، قانون کیا کہتا ہے؟
سندھ اسمبلی نے 4 سال قبل اقلیتی بل 2016ء منظور کیا جس کے مطابق مذہب اگر جبری طور پر تبدیل کرایا جائے یا اس میں معاونت کی جائے تو ملزمان کو 3 سے 5 سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بل کے تحت ایسے مقدمات کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
قانونی بل کے مطابق کمسن افراد کا یہ دعویٰ کہ وہ مذہب تبدیل کرچکے ہیں، قبول نہیں کیا جاسکتا۔ بچوں کے والدین یا کفیل خاندان سمیت مذہب تبدیل کرنے کے فیصلے کے مجاز ہوں گے۔
بل میں کہا گیا کہ اگر ملزم پر الزام ثابت ہوجائے کہ اس نے جبری طور پر کسی کا مذہب تبدیل کرایا ہے تو اسے 5 سال قید بھگتنی پڑے گی اور جرمانہ متاثرہ فریق کو ادا کیا جائے گا۔ سہولت کار کو بھی 3 سال قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جبری شادی کے منتظمین، مولوی حضرات اور دیگر سہولت کار شریکِ جرم ٹھہرائے گئے۔
معاشرے کا کردار
پاکستان کے تمام شہری مل جل کر اس کا معاشرہ ترتیب دیتے ہیں جن میں مسلمان، ہندو، مسیحی اور دیگر اقلیتیں بھی شامل ہیں جن کا کردار یہ ہونا چاہئے کہ مذہب کو جبری طور پر تبدیل کرنے کا جرم کوئی بھی شخص کرے، اس کے خلاف آواز ضرور اٹھائیں۔
حال ہی میں ترجمان سندھ حکومت نے آرزو نامی مسیحی لڑکی کو شادی شدہ خاتون کہا تو ایک خاتون صحافی نے سوال کیا کہ کیا سندھ چائلڈ میرج رسٹرینٹ ایکٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتا؟ ایک 13 سالہ بچی اپنی مرضی سے شادی کیلئے رضامندی کیسے ظاہر کرسکتی ہے؟
غور کیا جائے تو ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہر شہری کا حق ہے چاہے اس کا تعلق اقلیت سے ہی کیوں نہ ہو اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ زبردستی جن لوگوں کا مذہب تبدیل کرکے مسلمان کیا جائے، وہ اگر مرتد ہوجائیں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی؟
پاکستانی معاشرہ مسلم اکثریت پر مشتمل ہے اور ہر مسلمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ جبری مذہب کی تبدیلی جیسے جرم کے خلاف آواز بلند کرے تاکہ یہ تصور کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا تھا، اپنی موت آپ مر جائے۔