نیویارک: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مستحکم افغانستان کیلئے عالمی برادری کو مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے جس کیلئے تمام ممالک کے سربراہان کو مل بیٹھنا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیو یارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مستحکم افغانستان کیلئے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے عالمی دنیا کو بتا دیا کہ اگر افغان مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو صورتحال بگڑ سکتی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستان ایک حلیف کی حیثیت سے کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔ عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں مفید رہیں اور انہوں نے پاکستان کے مؤقف کو غور سے سنا۔ افغانستان میں مخلوط حکومت پاکستان کی بھی خواہش ہے۔
افغانستان کی صورتحال کے متعلق وزیرِ خارجہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمیں تحمل سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کافی عرصے بعد امن کی ایک امید پیدا ہوئی ہے۔ اگر بہتر حکمتِ عملی نہ اپنائی تو افغانستان کے حالات بگڑ بھی سکتے ہیں۔ افغان عوام کے امن کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اقوامِ متحدہ اجلاس میں شرکت کے بارے میں آگہی دیتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کا موقع ملا۔ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات کے دوران کشمیر کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ ڈوزئیر پیش کیا گیا۔ موسمیاتی تبدیلی پر بھی گفتگو ہوئی۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سب کو مل کر ایک مربوط حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ امریکی وزیرِ خارجہ سے پاک امریکا تعلقات کے متعلق بات چیت ہوئی۔ انہوں نے افغانستان سے انخلاء میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں تمام تر موضوعات کا احاطہ کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے متعلق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم نے بھارتی بربریت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا۔ بھارتی جارحیت بے نقاب کی۔ پاکستان کا نقطہ نظر بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھا۔ مسئلۂ کشمیر بھرپور طریقے سے اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ گزشتہ 20 سال سے الزامات کی سیاست (بلیم گیم) چل رہی ہے۔ طالبان کو کامیابی اشرف غنی کی ناکام پالیسی کے باعث ملی۔ ہم نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلمان انتہا پسندوں کے نشانے پر، اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔وزیر اعظم