موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات پاکستان بھر میں پہلے ہی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ملک کو اس ہفتے شدید گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے برفانی سیلاب نے شمالی علاقوں کو متاثر کیا ہے۔
حکام کی جانب سے پہلے ہی سندھ اور پنجاب کے کچھ حصوں میں ہیٹ الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات نے بالائی پنجاب، اسلام آباد، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں درجہ حرارت اوسط سے 7 سے 9 ڈگری زیادہ رہنے کی پیش گوئی کی ہے جب کہ سندھ اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت معمول سے 6 سے 8 ڈگری زیادہ رہنے کا امکان ہے۔
انتہائی گرم اور خشک موسم پانی کے ذخائر، فصلوں، سبزیوں اور باغات کو متاثر کرے گا اور زیادہ درجہ حرارت توانائی کی طلب میں اضافہ کرے گا۔ ملک کے کئی حصوں کو پانی اور بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھ سکتا ہے۔
سندھ حکومت نے شکایت کی ہے کہ اسے اپنے حصے کا پانی نہیں مل رہا۔ بلوچستان میں پانی ختم ہو رہا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح ہر گزرتے دن کے ساتھ نیچے جا رہی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران زیادہ تر سرسبز و شاداب چراگاہیں پانی کی کمی کے باعث صحراؤں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ پانی کی کمی لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر سکتی ہے کیونکہ وہ پینے اور زراعت کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار کرتے ہیں۔
برکلے ارتھ جو ماحولیاتی سائنس پر تحقیق کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے،کی رپور ٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان گزشتہ دو ماہ سے غیر معمولی گرمی کی لہر کی لپیٹ میں ہیں لیکن بدترین صورتحال ابھی آنا باقی ہے۔ ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو 40 سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے ہزاروں افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں، مارچ 1961 کے بعد سے ریکارڈ کیا گیا سب سے گرم مہینہ رہا۔ سندھ کا شہر جیکب آباد جسے ”انسانوں کے لیے ناقابلِ رہائش” قرار دیا گیا ہے، گزشتہ ہفتے درجہ حرارت 49 ڈگری تک پہنچ گیا، درحقیقت، پاکستان نے اس سال موسم بہار کو چھوڑ دیا اور براہ راست گرمیوں میں چلا گیا۔
2015 میں پاکستان میں ہیٹ ویو کی وجہ سے 1200 سے زیادہ اموات ہوئیں۔ اس سال صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اگر اثرات کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں۔ گرین کور کی کمی کی وجہ سے شہری گرمی سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں اور صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
حکومت گرمی کے اثرات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے لیکن اسے انتباہی نظام بنانے، گرمی سے موافقت کے منصوبے تیار کرنے اور خطے میں کم آمدنی والے طبقوں کے لیے ٹھنڈک کے وسائل تک رسائی فراہم کرنے جیسی کوششیں کرنی ہوں گی۔ یہ خطہ انتہائی موسمیاتی واقعات کا شکار ہے اور ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔