اسلام آباد: عورت مارچ پریس کانفرنس کے دوران فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ ہم نے 24فروری کو این اوسی کےلیے اپلائی کیا تھا ہمارے انتظامیہ کے ساتھ مسلسل مذاکرات چل رہےتھے جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم بھی اسی دن مارچ کرنا چاہتے ہیں ہمیں انتظامیہ نے این او سی 8مارچ کو تین بجے سے چھ بجے تک کا دیا گیا تھا ۔
ہمیں انتظامیہ نے کہا کہ آپ ریلی تاخیر سے شروع کریں ہم نے چار بجے ریلی شروع کی جبکہ انتظامیہ کی ناکامی تھی کہ انہوں نے دباؤ کے تحت بلیک میل ہو کر انھیں اجازت دے دی آمنے سامنے دو ریلیاں تھیں ایک قنات لگا کر اسے علیحدہ کیا ہوا تھا حکومت کو اس کی ذمہ داری لینی ہوگی ۔
ہمارے پاس این او سی تھا انتظامیہ نے پھر دو دوسرے گروپس کو اجازت کیوں دی ہمارے علاوہ کسی اور کو این او سی نہيں دینا چاہیے تھا جبکہ طوبیٰ کا کہنا تھا ہمیں تھریٹ تھی پولیس والوں کی جان بھی قیمتی ہوتی ہے جسے آپ مظاہرے میں سامنے کھڑے کر دیتےہیں کمزور کو طاقتور کے آگے کر دینا درست نہیں جبکہ پولیس والوں کے پاس اپنے دفاع کےلئے کچھ بھی نہیں تھا ۔
ایسی صورتحال میں وہ ہماری مدد کیسے کر سکتے تھے عصمت شاہجہان کا کہنا تھا عورت آزادی مارچ پر ہر طرف سے حملہ ہوا انتظامیہ نے درست انتظامات نہیں کیے مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک حملہ تھا سماج کی طرف لائے گئے لوگوں نے عورتوں کو تنگ کیا طوبیٰ کا مزید کہنا تھا جو عورتوں کا دن تھا اس دن ہم پر حملہ کیا گیا پولیس والوں نے بڑی تیزی سے کام کیا سلام ہے ان پولیس والوں کو جنھوں نے عورتوں کا دفاع کیا پکی سڑک پر پتھر کہاں سے آئے ہم پر پتھر جوتے ڈنڈے کانچ کی بوتلوں برسائی گیئں۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد میں عورت مارچ پر پتھراؤ کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا