پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے بارے میں غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے، چیئرمین ایچ ای سی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے بارے میں غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے، چیئرمین ایچ ای سی
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے بارے میں غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے، چیئرمین ایچ ای سی

کراچی پریس کلب میں چیئرمین HEC ڈاکٹر طارق بنوری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے بارے میں غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔

ہائر ایجوکشن کمیشن کا حالیہ معاملہ کچھ افراد کے مابین نہیں بلکہ یہ اعلی تعلیم کے حوالے سے غلط بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔

میں نے بحثیت چیئرمین HEC کوشش کی کہ P.hD اور ڈگری پروگرام کی نئی پالیسی جاری کی اور ٹریننگ اور اساتذہ کی کارکردگی کا سلسلہ شروع کیا تاکہ علمی آزادی ہو اور اساتذہ جس کو بہتر سمجھتے ہیں وہ آزادی سے کہہ نہیں سکتے کیونکہ ان کی ترقیاں رک جاتی ہیں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کچھ لوگ ہیں جو تعلیمی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، مجھے مدعو کرنے پر پشاور یونیورسٹی کی بلڈنگ کے ٹرانسفارمر کو اڑا دیا گیا اور ڈین سمیت چیئرمین کو دباؤ میں ڈالا جا رہا ہے اور جامعہ کراچی کے اساتذہ نے مجھے مدعو کیا انہیں دباؤ میں لاکر پروگرام منسوخ کیا اور اب شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جامعہ اردو نے مجھے دباؤ کے باوجود مدعو کیا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسز کو ڈسکس کیا۔

طارق بنوری کا کہنا ہے کہ جامعات کی آزادی بالکل نہ ہونے کے برابر ہے، فنڈنگز کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، جامعات میں وائس چانسلرز کا تقرر وقت پر ہونا چاہیئے اور خود جامعات اس کا تقرر کریں تاکہ باہر کا دباؤ نہ ہو۔سینیٹ اور سنڈیکیٹ کو مضبوط بنانا چاہیئے تاکہ تعلیم کی کوالٹی مضبوط ہو۔

چیئرمین کا کہنا تھا کہ پبلک کے اداروں میں پرفامنس اور مالی آڈٹ ہونا چاہیئے اور احتساب ہونا چاہیئے، ریسرچ کی پرفارمنس کو بھی ہم باریک بینی سے دیکھیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت ریسرچ خاص تعداد میں پرچے چھاپنے کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بڑی جامعہ میں پاکستان اور عوام کے مسائل پر کوئی فرق نہیں پڑا اور اس علمی ذخیرے سے عوام کو کیا فائدہ کیا ہوا، خود ریسرچر کو بھی نہیں معلوم۔

ہم چاہتے ہیں طالبعلم جب جامعہ سے نکلیں تو وہ معاشرے کو کچھ دینے کے قابل ہوں اور ہم چاہتے ہیں HEC اس طرح کی کارکردگی کو سامنے لائے اور اس ایجنڈا کو سب نے مل کر پروموٹ کرنا ہے۔

دوسری جانب جامعہ اردو کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیوں کے جامعات و اساتذہ پر اثرات کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں چیئرمین HEC ڈاکٹر طارق بنوری نے اساتذہ اور محقیقن کو تعلیمی مسائل اور ان کے تدارک پر تفیصلی آگاہ کیا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین طارق بنوری نے کہا کہ جامعہ اردو میں HEC پالیسیوں نمبر دینے کا مروجہ سلسلہ فراڈ کے مترادف ہے، جھوٹے جرنلز شائع ہو رہے ہیں، اساتذہ اپنے شاگردوں کے تحقیقی مقالوں میں اپنا مام شامل کراتے ہیں جو غلط ہے۔

نام نہاد سائنس دانوں نے تحقیق کو مذاق بنایا ہے، پی ایچ ڈی کرنے والے بہت ہیں کوئی نئی چیز سامنے نہیں لا سکے۔میں اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لگاتا، ستارہ امتیاز میری پہچان نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر میرے مقالے میری پہچان ہیں اور یہی مرا اثاثہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کل اساتذہ نے اپنے پرچے میں کنٹری بیوشن کیا ہے، پروفیسر کیا کچھ معاشرے کو دے رہا ہے یہ اہم ہے۔قابل لوگوں کی پہچان کرنے کیلئے ان کے ریسرچ مقالے اور ڈگریاں نہیں بلکہ ان کا فن بولتا ہے۔

ریکروٹمنٹ اور ریکنگ کا مروجہ سلسلہ فراڈ ہے، تجاویز دیں تاکہ تعلیمی معاملات کو بہتر کریں۔کوئی جامعہ خود مختار نہیں ہے، صرف نجی جامعات خود مختار ہیں، وائس چانسلرز مجھے انوائٹ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، جھوٹے کیسوں، انکوائری شروع ہونے سے گھبراتے ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن بلا تفریق جامعات کو پیسے نہیں دیتا یہ غلط طریقہ ہے، بعض جامعات کو زیادہ پیسے ملتے ہیں اور طے شدہ فارمولہ لاگو نہیں ہے، ایک تہائی جامعات کو دگنا پیسے مل رہے ہیں اور ایک تہائی کو فارمولے سے بھی کم ملتے ہیں۔

فی الحال ہم نے ایک انٹیرم سلسلہ بنایا ہے اور اس کے تحت ہم جامعات کو پیسے دے رہے ہیں، حکومت جب بھی اپنے طریقہ کار کے ذریعے پیسے دیتی ہے وہ اپنے کام بھی کرواتی ہے جب کہ تحقیق کرنے کیلئے پیسے میرٹ پر دیئے جانے چاہیئے ہیں۔

ہمارے پاس کئی کیس آتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہوا ہے اس کی تصدیق کریں ہم نے TTC پر جامعات کے فیصلے کو ترجیح دی ہے۔جامعات کی خود مختاری اور وائس چانسلر کی بھرتیاں اہم ایشوز ہیں، اس کے علاوہ احتساب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور میرے خیال میں ہر ایک کو جواب دہ ہونا چاہیئے۔

جامعات کی پرفامنس کو ہر سال چیک کرنا چاہیئے مگر فی الحال ایسا مشکل ہے، پرفامنس کا مروجہ سلسلہ ہراس ہے۔ جو لوگ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں مسائل پیدا کر رہے تھے ان کو ادھر ادھر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک HEC کے بارے میں ایک بیانیہ تیار ہو چکا ہے کہ HEC صرف پالیساں بنا رہا ہے۔طلبہ تنظیمیں بحال ہو گئی ہیں اور ہونا چاہیئے، اب تعلیمی مسائل کا احاطہ ہونا چاہیئے اور تعلیمی مسائل پر قابو پانے کی تحریک شروع ہونی چاہیئے۔

Related Posts