کراچی میں ٹریفک بحالی کے نام پر بھتہ وصولی عروج پر

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی میں ٹریفک بحالی کے نام پر بھتہ وصولی عروج پر
کراچی میں ٹریفک بحالی کے نام پر بھتہ وصولی عروج پر

کراچی ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل کا شدید شکار ہوتا جارہا ہے۔ سڑکوں کی کشادگی اور فلائی اوورز کی تعمیر بھی ٹریفک کے مسائل کو کم نہیں کرپا رہے۔ ٹریفک پولیس نے ٹریفک جام پر قابو پانے کی بجائے اہم شاپنگ سینٹروں کے باہر سے موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں اٹھاکر اپنی جیبیں بھرنے پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔

ٹریفک بحالی کے نام پر بھتہ وصولی کے لیے ٹریفک اہلکار شاپنگ سینٹرز کے باہر سے موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں اٹھاکر لے جاتے ہیں، شاپنگ کرکے سینٹر سے باہر آنے والے شہری اپنی موٹر سائیکلیں یا گاڑیاں نہ پا کر انتہائی پریشان ہوجاتے ہیں۔ جس پر وہ معلومات حاصل کرتے ہیں اور متعلقہ ٹریفک سیکشن پہنچتے ہیں۔ تو وہاں ان سے فی بائیک 450 روپے سے 300 روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں موٹر گاڑیوں کی تعداد تقریباً 60 لاکھ ہے جن میں ایک چوتھائی تعداد صرف کراچی میں چلتی ہیں، جبکہ پارکنگ  کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے جس سے ٹریفک کے مسائل دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔

ٹریفک سیکشن پر جرمانے کے نام پر شہریوں سے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے آمدنی کا بڑا حصہ مبینہ طور پر اعلیٰ افسران تک پہنچتا ہے۔

حکومت سندھ کے نوٹیفکیشن نمبر پی او ایل۔ ایچ ڈی5/8/2012مجریہ28مئی2012کے تحت نجی ایجنسی کو دیئے گئے کراچی ٹریفک پولیس کے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔ نجی ایجنسی براہ راست ڈی آئی جی ٹریفک کو جواب دہ ہے۔

ایجنسی کے اہلکار شاہراہوں سے سنگل لائن میں کھڑی موٹر سائیکلیں اور کاریں بھی اٹھاکر لے جاتے ہیں حالانکہ خود ٹریفک پولیس نے ضابطہ جاری کیا تھا جس کے تحت سنگل لائن میں کھڑی گاڑی نہیں اٹھائی جاسکتی۔

نجی کمپنی ضابطہ اخلاق میں رہ کر خدمات انجام دے

شہریوں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور صوبائی محتسب اعلیٰ سے نجی کمپنی کا کنٹریکٹ منسوخ کرنے یا پھر انہیں کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

حکومتی ذمے داری

خدشہ ہے کہ اگر نجی کمپنی کے اہلکاروں کی موجودہ لوٹ مار کو بند نہیں کیا گیا تو کسی بھی وقت صورتحال بگڑنے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اب یہ حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ صورتحال بگڑنے سے قبل ایسے قوانین وضع کرکے شہری آئے روز کی پریشانی سے محفوظ رہ سکیں۔

مسئلے کا حل

مسائل سے بچنے کا واحد راستہ اجتماعی سوچ میں پنہا ہے۔  ٹریفک کے انتظام کے مجموعی ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ حکومت سندھ کی یہ بھی زمے داری ہے کہ وہ شاپنگ سینٹرز کے اندر پتھاروں اور ٹھیلے والوں کو متبادل جگہ فراہم کرے تاکہ شاپنگ سینٹرز کے باہر آنے والے صارفین کو آسانی سے پارکنگ کی جگہ میسر ہو سکے۔

Related Posts