کراچی: پاکستان اسٹیل ملز کے سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ 6 برس سے بند آکسیجن پیداواری پلانٹ کو کھولنے سے یومیہ 520 ٹن آکسیجن پیدا ہو سکتی ہے۔ جو 99.5 فیصد خالص آکسیجن گیس ہو گی۔ پاکستان اسٹیل کے آکسیجن پیداواری پلانٹ کے ملازمین نے اجازت ملنے پر ایک ہفتے میں اس پلانٹ کو پیداوار کے قابل بنانے کی پیش کش کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ملک میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے دوران مریضوں کی تعداد بڑھنے سے اسپتالوں میں جگہ کم اور آکسیجن کی کمی واقع ہو سکتی ہے تاہم پاکستان اسٹیل کے آکسیجن پیداواری پلانٹ کو دوبارہ کھولنے سے آکسیجن کی قلت کا خدشہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔
پاکستان اسٹیل کے سابق ملازمین اور ورکرز یونین کے رہنماؤں کی جانب سے حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان اسٹیل کے بند آکسیجن پلانٹ کو فعال کرکے پورے پاکستان میں آکسیجن کی طلب پوری کی جاسکتی ہے اور آکسیجن کی بلیک مارکیٹنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کا آکسیجن پلانٹ 2015ء سے بند پڑا ہے، جسے صرف 8 سے 12 روز میں فعال کیا جاسکتا ہے، اس پلانٹ کو چلانے کے لیے 40 افراد پر مشتمل عملے کی ضرورت ہوگی، اب چوں کہ ملک کو ضرورت ہے تو ہنگامی بنیادوں پر 24 گھنٹے کام کرکے صرف ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جب کہ ادارے کے فیبریکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں آکسیجن کے سلنڈرز بھی تیار کیے جاسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کہتے ہیں کہ اگر اس وقت پاکستان اسٹیل آکسیجن پلانٹ چل رہا ہوتا تو آج پورے پاکستان میں کورونا کے متاثرین کو اسپتالوں میں آکسیجن کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی تھی تاہم آکسیجن پلانٹ 2015ء میں چلتی حالت میں یہ کہہ کر بند کردیا گیا کہ جب اسٹیل ہی نہیں بنا رہے تو آکسیجن کی کیا ضرورت ہے۔
پاکستان اسٹیل کے مزدور رہنماؤں نے کہا کہ اب ملک کو ضرورت ہے تو ہنگامی بنیادوں پر 24 گھنٹے کام کر کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
ملازمین کی اس اہم اور بر وقت پیشکش پر وزارت پیداوار نے اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان بھی اس صورتحال میں فوری نوٹس لے کر احکامات صادر کر دیں تو آکسیجن کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے بلکہ دوسرے ممالک کی امداد بھی ممکن ہو سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں : حکومت کورونا ویکسینیشن کا انتظام کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے، احسن اقبال