برائے نام اپوزیشن کے ساتھ روسی ووٹرز نے آج جمعہ سے شروع ہونے والے تین روزہ صدارتی انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ حسب روایت صدر ولادیمیر پوتین نئی مدت کے لیے جیت جائیں گے۔
العربیہ کے مطابق یہ انتخابات کریملن کے مرد آہن کی نظر میں اہم ہیں کیونکہ یہ ان کی قانونی حیثیت کو مضبوط کرنے اور سلامتی اور استحکام کے محافظ کے طور پر ان کی پسندیدہ تصویر کی تجدید کی نمائندگی کرتے ہیں۔
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق خاص طور پر ولادی میر پوتین کی شبیہ اس وقت متاثر ہوئی جب یوکرین میں فوجی آپریشن ایک تنازع میں بدل گیا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور مغرب کے ساتھ تعلقات منقطع ہو گئے۔
ستر سالہ ولادی میر پوتین کے مقابلے میں 3 دیگر امیدوار بھی میدان میں ہیں مگر سبھی ڈوما (روسی پارلیمنٹ) کے رکن ہیں اور انہوں نے یوکرین میں فوجی آپریشن کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
75 سالہ نیکولائی خاریتونوف کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہیں۔ وہ پہلے ہی 2004 میں پوتین کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوچکےہیں۔
پوتین کے وفادار لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے56 سالہ لیونیڈ سلٹسکی نے زور دیا کہ وہ ووٹرز کو صدر کے خلاف متحرک نہیں کریں گے، نیو پیپلز پارٹی کے 40 سالہ داوانکوف ایک لبرل شخصیت ہیں نے یوکرین میں “امن” کا مطالبہ کیا ہے، لیکن بنیادی طور پر پوتین کی حمایت کی ہے۔
جبکہ یوکرین میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے والے 2 امیدواروں کو باہر کر دیا گیا۔ سیاست دان بورس نادیزدین نے پوتین کی انتظامیہ کو اس وقت خوف زدہ کیا جب روس بھر میں دسیوں ہزار لوگ ان کی امیدواری کے لیے درکار درخواستوں پر دستخط کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
ان ناموں کے درمیان جو حقیقی مقابلہ نہیں کرتے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پوتین تاحیات صدر رہ سکتے ہیں۔
پہلی بار صدارت سنبھالنے کے بعد 2000ء میں صدر بورس یلسن کے بعد پوتین نے تصدیق کی ہے کہ روسی آئین ان کی مدت کا تعین کرے گا، لیکن بعد میں انہوں نے آئین میں ترامیم کردی تھی۔
سنہ 2008ء میں جب صدارتی مدت کے حوالے سے قوانین نے انہیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا وہ صدر دمتری میدویدیف کے ماتحت وزیر اعظم بن گئے حالانکہ وہ 2014ء میں دوبارہ صدارتی عہدہ حاصل کرنے سے پہلے مرکزی حکمران قوت رہے تھے۔
2014 میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہمیشہ صدر رہیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ “یہ اچھا نہیں ہے اور ملک کو نقصان پہنچے گا۔ مجھے بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
تاہم جلدی ہی ان کا موقف تبدیل ہوگیا اور انہوں نے کہا: “ہم دیکھیں گے کہ حالات کیسے ہوں گے، لیکن کسی بھی صورت میں میرے کام کی مدت آئین کے تحت محدود ہے۔”
قابل ذکر ہے کہ 2018 کے الیکشن سے قبل صدارتی مدت کو 6 بار تک بڑھا دیا گیا تھا۔ پوتین اب کم از کم دو صدارتی میعاد حاصل کر سکتے ہیں یعنی وہ 2036ء روس کے صدر منتخب ہوسکتے ہیں۔