مشیرِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شخ نے گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں میڈیا بریفنگ کے دوران ایک اقتصادی سروے رپورٹ پیش کی جس میں گزشتہ مالی سال کا ایک جائزہ پیش کیا گیا جبکہ آج وفاقی حکومت نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرے گی جس سے عوام کو بہت توقعات وابستہ ہیں۔
اقتصادی سروے سے قبل مشیرِ خزانہ نے فرمایا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار سرکاری آمدنی زیادہ اور اخراجات کم رہے جبکہ وفاقی حکومت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی خاطر خواہ کمی لانے میں کامیاب رہی۔ ہم نے ماضی کے قرضے واپس کیے تاہم زرِ مبادلہ کم ہوا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کی اقتصادی سروے رپورٹ کا خلاصہ
مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کے مطابق 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب ڈالر ہوا، 5000 ارب کے قرضےواپس کیے گئے، ٹیکسز کا ہدف تو پورا نہ ہوا لیکن وصولیابی میں بہتری ریکارڈ کی گئی۔ زرِ مبادلہ کم ہو کر 8 اعشاریہ 9 ارب رہ گیا۔ تباہ حال معیشت ملی جسے خطرے سے نکال لیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے پرانے قرض کی ادائیگی کیلئے نئے قرض لیے۔ فوج کا بجٹ منجمد کر دیا گیا جس پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک سے ہم نے کوئی قرض نہیں لیا، نہ ہی سپلیمنٹری فنڈز ادا ہوئے۔ بیرونی فنڈز پر کم انحصار رہا۔ اخراجات کم رہے اور درآمدات میں کمی لائی گئی تاکہ ڈالرز کی فراہمی جاری رہے۔
حکومت ٹیکسز میں اضافہ کرکے اخراجات میں کمی لائے گی، غیر ملکی قرضے واپس کریں گے جبکہ 701 ارب کے اخراجات پی ایس ڈی پی میں اور 192 ارب سوشل سیفٹی نیٹ کیلئے ہوئے۔ہم اسٹیٹ بینک سے قرض نہ لے کر لوگوں کو مہنگائی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
کورونا وائرس کے باعث نقصانات کے تخمینےکو مشکل قرار دیتے ہوئے مشیرِ خزانہ نے کہا کہ آمدنی میں 3 سے 3.5 فیصد تک خسارہ ہوا۔ ٹیکس 3 ہزار 900 ارب ہے جس میں تقریباً 800 ارب کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
عوام کو ریلیف کیلئے 2 طرز کے پیکیج دئیے گئے جس میں 1240 ارب کا ریلیف پیکیج ہے۔1 کروڑ 60 لاکھ میں سے 1 کروڑ خاندان امداد حاصل کرچکے جبکہ 10 کروڑ پاکستانی اس سے فوائد حاصل کرسکیں گے۔
ہم نے 280 ارب کی گندم خریدی۔ رواں سال گندم کی خریداری کیلئے رقم 2 گنا کردی گئی۔ زراعت کیلئے 250 ارب کی اسکیم لائی گئی۔ رمضان المبارک کے دوران یوٹیلیٹی اسٹورز پر 15 فیصد تک رعایت دی گئی جبکہ کم آمدنی ہاؤسنگ اسکیم کیلئے 30 ارب رکھے گئے۔ کم آمدنی والوں کو ٹیکسز میں 90 فیصد چھوٹ بھی دی گئی۔
نجی شعبوں کے ترقیاتی پروگرامز کیلئے 250 ارب دئیے جائیں گے۔کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر کی آمدنی 3 سے 4 فیصد کم ہونے کا خدشہ ہے۔
بجٹ 2020ء کیلئے تجاویز
آئندہ بجٹ کی تجاویز ہمارے سامنے ہیں تاہم اِن سطور کی تحریر تک اس پر وفاقی کابینہ کا فیصلہ اور قومی اسمبلی میں بجٹ آنا ابھی باقی ہے۔ تجویز دی گئی ہے کہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 650 ارب روپے رکھا جائے جس میں سے ایوی ایشن ڈویژن 1 ارب 32 کروڑ، وفاقی وزارتیں 418 ارب جبکہ کابینہ ڈویژن کا بجٹ 47 ارب 80 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔
سرمایہ کاری بورڈ 80 کروڑ، موسمیاتی تبدیلی 5 ارب، کامرس ڈویژن 10کروڑ، وزارتِ تعلیم 4 ارب 52 کروڑ، وزارتِ خزانہ 66 ارب 66 کروڑ، ہاؤسنگ و تعمیرات 8 ارب 73 کروڑ، وزارتِ اطلاعات 36 کروڑ، وزارتِ انسانی حقوق 25 کروڑ، ہائر ایجوکیشن کمیشن 29 ارب 47 کروڑ، وزارتِ صنعت و پیداوار 80 کروڑ، میری ٹائم افیئرز 2 ارب 68 کروڑ، قانون و انصاف 99 کروڑ جبکہ غذائی تحفظ کیلئے 12 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
انسدادِ منشیات کیلئے 5 کروڑ 38 لاکھ، نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے 14 ارب 50 کروڑ، قومی ورثہ و ثقافت کیلئے 19 کروڑ 47 لاکھ ، سماجی تحفظ کیلئے 13 کروڑ 50 لاکھ، منصوبہ بندی ڈویژن کیلئے 3 ارب 54 کروڑ، ریلوے کیلئے 24 ارب، کورونا وائرس اور دیگر قدرتی آفات کیلئے 70 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ پیپکو کیلئے 39 ارب سے زائد جبکہ آبی وسائل کیلئے 81 ارب 85 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔
کورونا وائرس کے تناظر میں بجٹ کی اہمیت
ملک بھر میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 2 ہزار 400 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جس کے پیشِ نظر حکومت نے لاک ڈاؤن نافذ کیا تاہم وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا کیونکہ دیہاڑی دار مزدور افراد اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور حکومت کو ریلیف پیکیجز کا اعلان کرنا پڑا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس ترتیب دے کر نوجوان رضاکاروں کو عوام کی خدمت پر لگا دیا۔ صوبائی حکومتوں نے بھی اپنے اپنے طور پر عوام کی مالی معاونت کے وعدے کیے، تاہم یہ سب کچھ ناکافی ثابت ہوا اور بے شمار افراد بے روزگار بھی ہوئے جس کے باعث ملکی معیشت انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔
جب حکومت نے لاک ڈاؤن ہٹا دیا تو کورونا وائرس کے کیسز مزید شدومد سے سامنے آئے اور خود وزیرِ اعظم عمران خان کے مطابق جولائی اور اگست کے دوران کورونا وائرس کیسز اپنے عروج کو پہنچیں گے یعنی وباء مزید تیزی سے پھیلے گی، لہٰذا عوام کو شعبۂ صحت و روزگار کے ساتھ ساتھ حکومت سے ویلفیئر کے کاموں کی بھی قوی امید ہے۔
حکومتی وعدے اور تسلیاں
گزشتہ روز اقتصادی سروے کے دوران مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے آئندہ بجٹ میں عوام پر نئے ٹیکسز عائد نہ کیے جائیں۔ دوسری جانب غریب عوام کیلئے وزیرِ اعظم عمران خان نے لاکھوں یا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی امداد کی ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی معاملات پریشان کن نہج پر جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
حکومتی وعدے اور تسلیاں اپنی جگہ، لیکن جس غریب بے روزگار کے گھر کا چولہا بجھ گیا اور جو لاک ڈاؤن کے باعث نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا۔ ایسے پاکستانی شہری جائے تو کہاں جائے اور کیا کرے؟ حکومت کے بجٹ سے عوام نے ہر شعبے میں بہت مثبت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
اہم شعبہ جات
تعلیم، صحت اور روزگار کے ساتھ ساتھ زراعت بھی اہم شعبہ ہے۔ تجارت و صنعت، آبی وسائل، سائنس و ٹیکنالوجی اور موسمیاتی تبدیلی سمیت ملک کا ہر شعبہ اپنی اپنی جگہ الگ اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔
دوسری جانب حکومتِ پاکستان آئی ایم ایف کی تجاویز پر بھی عمل کرنا چاہے گی کیونکہ مالی مشکلات اپنی جگہ اہم ہیں تاہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تجاویز پر عمل کا مطلب عوام کو ٹیکسز میں ریلیف نہ دینا ہوگا جس کی موجودہ حالات کے تناظر میں کوئی گنجائش نہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ ہر شعبۂ زندگی کیلئے مناسب بجٹ مختص کرے تاکہ عوام الناس کو درپیش مسائل کا تدارک ہوسکے۔ نئے ٹیکسز عائد نہ کرنے کا وعدہ اپنی جگہ لیکن جو ٹیکسز پہلے سےنافذ العمل ہیں، ان میں بھی ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔