اسلامی تہوار کا دوسرا روز اور مسلم معاشرے میں عید الفطر کے سماجی پہلو

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلامی تہوار کا دوسرا روز اور مسلم معاشرے میں عید الفطر کے سماجی پہلو
اسلامی تہوار کا دوسرا روز اور مسلم معاشرے میں عید الفطر کے سماجی پہلو

پاکستان میں گزشتہ روز عیدالفطر کا اسلامی تہوار دینی جوش و جذبے سے منایا گیا اور قوم نے نمازِ عید کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی کا اہتمام کرتے ہوئے نئے یا محض صاف ستھرے کپڑے پہن کر خوشی کا اظہار کیا۔

بلا شبہ عید الفطر کےموقعے پر نمازِ عید کی ادائیگی، میٹھا کھانا، نئے کپڑے پہننا اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینا اسلامی روایات ہیں لیکن اس موقعے پر اسلام کی کچھ اہم روایات ایسی بھی ہیں جنہیں ہم رفتہ رفتہ بھولتے جا رہے ہیں۔

عید الفطر کے دوسرے روز ہمیں اس اسلامی تہوار کے سماجی پہلو کو دیکھنا اور اسلامی معاشرے کے زریں اصولوں کو اپنانے پر غور کرنا ہوگا جو ہماری اسلامی ثقافت کی جان ہیں۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں اسلام کی وہ زریں روایات کیا ہیں۔

دورِ جاہلیت اور دینِ اسلام

اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا دیا ہوا وہ دین ہے جس نے مسلمانوں کو ایک وحدت کی شکل دی۔دورِ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ اسلام نے خواتین کے حقوق متعین کیے۔ والدین کو ان کے بچے قتل کردیا کرتے تھے۔ اسلام نے بتایاکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور جو مال تمہارے پاس ہے، وہ تمہارے باپ کا ہے۔ اس میں سے جو چاہے لے سکتا ہے۔

دینِ اسلام نے ہمیں صرف عید الفطر کے موقعے پر ہی ایک دوسرے کا خیال رکھنا نہیں سکھایا بلکہ ہمسائے کے اتنے حقوق بیان کیے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شک گزرا کہ شاید وراثت یعنی مال و اسباب اور جائیداد میں ہماری وفات کے بعد ہمارے بچوں کے ساتھ ساتھ ہمسایوں کا بھی حصہ ہوگا۔

غلامی دورِ جاہلیت کی روایات میں سے ایک اہم غیر انسانی روایت تھی جس کے تحت ایک انسان خود کو آقا اور دوسرے کو غلام سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ جو سلوک چاہتا کرسکتا تھا۔ حضرت بلالِ حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسلام قبول کرنے اور احد احد پکارنے والے غلام کو تپتی ریت پر لٹا دیا گیا اور مالک نے ان کے ساتھ ہر ممکن غیر انسانی سلوک کیا۔

حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاندانی اعتبار سے حبشی تھے۔ آپ کا رنگ کالا تھا لیکن اسلام نے کہا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورےپر کوئی ترجیح نہیں، نہ عربی کو عجمی پر اور نہ ہی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ اگر فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے یعنی کون اللہ تعالیٰ سے اعمال کی انجام دہی میں کوتاہی اور ظلم پر کتنا ڈرتا ہے۔

تقویٰ ایک ایسی اصطلاح ہے جو دینِ اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ اس میں خود احتسابی اور اللہ تعالیٰ کا خوف دونوں شامل ہیں۔ جو شخص تقویٰ اختیار کر لے وہ دینِ اسلام کے ہر پہلو پر کامیابی سے عمل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، کیونکہ ہر بار جب وہ کوئی غلطی کرے گا، اللہ کا خوف اسے غلطی کے ازالے پر مجبور کردے گا۔

غلاموں اور یتیموں سے حسنِ سلوک

جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ریاستِ مدینہ کے ہراول دستے میں شامل ہوئے تو صحابہ نے انہیں سیدنا بلال کہہ کر مخاطب کرنا شروع کردیا۔ ایک غلام کو اتنی عزت ملی جس کی مثال تاریخ سے ملنا محال ہے۔ حضور ﷺ نے تمام غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا جو تم کھاتے ہو، انہیں وہی کھلاؤ اور انہیں وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔

غریبوں کا خیال رکھنے میں حضورﷺ سے زیادہ دنیا کا کوئی شخص افضل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آپ ﷺ نے یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا اور فرمایا مسلمانوں کا بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جاتا ہو اور بد ترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ بد سلوکی کی جاتی ہو۔

عید الفطر اور غریب عوام

حضورِ اکرم ﷺ کی مثال سامنے رکھتے ہوئے عید الفطر کے موقعے پر غریب عوام کو بھول جانا دینِ اسلام سے روگردانی کے مترادف ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک نے عید کے موقعے پر خوشی تو منائی لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے عید الفطر کے موقعے پر ہمسایوں کی خبر گیری کی ہو اور مستحق افراد کی امداد کی ہو۔

ملک بھر میں کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے نافذ لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان کے کتنے ہی گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے اور روزی پر جانے والے خاندان کی کفالت کے ذمہ دار افراد بے روزگار ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے۔ اس بات کے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ ملک کے کتنے لوگوں نے عید کی خریداری نہیں کی اور کتنے لوگ عید کے روز بھی ٹھیک سے کھانا نہیں کھا سکے۔

پاکستان کے مخیر اور صاحبِ حیثیت لوگ تو غریب اور مستحق عوام کی مدد کر ہی رہے ہیں، تاہم ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر پاکستانی شہری کا یہ فرض بنتا ہے کہ زیادہ نہیں تو اپنے ہمسایوں کا ہی خیال کرلیں۔اگر آپ کسی کی تھوڑی بہت مدد کرسکتے ہیں تو ایسے افراد میں سب سے مقدم آپ کے رشتہ دار اور ہمسائے ہیں۔

عید الفطر کی سماجی ذمہ داریاں

سماج یعنی معاشرہ کسی ایک فرد یا ادارے کا نام نہیں بلکہ ایک ملک کے شہری، ایک شہر کے عوام یا گاؤں کے باسی مل جل کر اس معاشرے کو ترتیب دیتے ہیں۔اسلامی معاشرہ اسے نہیں کہتے جس میں ایک مسلمان کے منہ پر کوئی تھپڑ مار دے تو دوسرا یہ دعا کرے کہ اللہ ظالم کو ہدایت دے اور خاموش ہوجائے بلکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور ظالم کے سامنے کلمۂ حق سب سے بڑا جہاد ہے۔

عید الفطر کے موقعے پر ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنی سماجی ذمہ داریاں پوری کرے۔ رشتہ داروں اور دوستوں سے میل جول اپنی جگہ اہم ہے لیکن ہمسایوں کا خیال رکھنے کی روایت کو اپنانا بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ کوشش کریں کہ آپ کی گلی یا محلے میں کوئی شخص بھوکا نہ سوئے۔ اس حوالے سے کام کوئی ایک شخص نہیں کرسکتا بلکہ اس کیلئے ہم سب کو مل جل کر آگے آنا ہوگا۔

ہر شہر میں کوئی نہ کوئی تنظیم ہوتی ہے۔ شہروں میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہوتی ہیں جہاں مختلف گروہ کام کرتے ہیں۔مثال کے طور پر فلیٹس کی ایسوسی ایشنز کو بھی یہ ذمہ داری دی جاسکتی ہے کہ مستحق افراد کی مدد کیلئے لائحۂ عمل بنایا جائے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھیں تاکہ آپ مضبوط ہوں اور دشمن آپ کی طرف میلی آنکھ اٹھانے سے قبل سو بار سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ 

Related Posts