گونگے حفاظِ قرآن!؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نابینا اور بہرے تو چلیں ٹھیک، مگر گونگا اور حافظ قرآن!؟ ہے ناں بڑی عجیب بات! لیکن اب یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں رہی۔ سعودی شیخ کی یہ اچھوتی فکر اور ان کے مدرسے کی یہ منفرد طرز تعلیم اب مشرق بعید تک پھیل چکی ہے۔
شعبان 1429ھ (جولائی 2008ء) کی بات ہے کہ سعودی دارالحکومت ریاض کے مدرسہ طیبہ (التابعۃ للجمعيۃ الخيريۃ لتحفيظ القرآن الکريم) کے مدیر نے سوچا کہ جب قرآن کریم کا نور چہار سو پھیلا ہوا، عرب و عجم، شرق و غرب اس سے مستفید ہو رہے ہیں، چھوٹے بڑے حتیٰ کہ نابینا بھی حافظ بن رہے ہیں تو بے چارے بہرے اور گونگے کیوں اس دولت سے محروم رہیں، انہیں بھی کلام الٰہی کی لذت سے محظوظ ہونا چاہئے۔ لیکن اسے ممکن کیسے بنایا جائے؟ انسان جب متفکر ہو جاتا ہے تو راستے کھل جاتے ہیں۔ چنانچہ مدیر صاحب کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ پہلے دو چار بچوں پر تجربہ کرکے دیکھنا چاہئے۔ پھر فیصلہ کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں چند گونگے و بہرے بچوں کو اشاروں کی زبان میں کچھ آیات یاد کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے اشاروں کی زبان کے کسی ماہر کی خدمات لیتے ہیں۔
چنانچہ ریاض کے علاقے حی المنار میں گونگوں بہروں کیلئے ایک کیمپ لگا دیا گیا۔ یہ ان اسپیشل افراد کو کتاب اللہ کی تعلیم دینے کی پہلی باقاعدہ کوشش تھی۔ یہ سمر کیمپ تعطیلات کے پورے دورانئے تک چلتا رہا اور اس میں کل 15 بچے شریک رہے۔ نتیجہ بڑا حوصلہ افزا رہا کہ ان بچوں نے قرآن کریم کی 18 سورتیں یاد کر لیں۔ اس کے بعد مدرسے نے تاریخ میں پہلی بار گونگوں اور بہروں کیلئے حفظ کی باقاعدہ کلاس کی بنیاد رکھ دی۔ لیکن اس دوران ایک مسئلہ اور کھڑا ہوا کہ معذوروں کو اس طرح اشاروں کی زبان میں قرآن پڑھانا شرعاً جائز بھی ہے کہ نہیں؟ تو مدرسہ انتظامیہ نے شرعی رہنمائی کیلئے مملکت کی دائمی فتویٰ کمیٹی سے رجوع کیا اور مفتي عام المملکۃ العربيۃ السعوديۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد الله آل الشیخ نے اس کے جواز کا فتویٰ جاری کر دیا۔

عالمی تنقید کا شکار طالبان حکومت خواتین کے حقوق کی محافظ بن کر سامنے آگئی

اس کے بعد یہ سلسلہ کافی مقبول ہوگیا اور مذکورہ مدرسے نے ایسے بچوں کو پڑھانے کیلئے ماہرین سے کورس کروا کر کئی معلمین تیار کئے۔ یہ معلمین ابجد کے طریقے پر ایسے بچوں کو پڑھاتے ہیں، پہلے مفردات کی تعلیم دی جاتی ہے، اس کے بعد مرکبات کی۔ اس کے بعد بچہ ارشاروں سے پڑھتا ہے۔ اس کے بعد مدرسے نے بڑی عمر کے گونگوں بہروں کیلئے بھی تعلیم وتربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ الشیخ معاذ بن خالد المسلَّم اس مشن کے میرکاروان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد معاشرے کے اس بھلائے ہوئے طبقے کو بھی کلام الٰہی سے روشناس کرانا ہے۔ الحمدللہ اسے سعودیہ سمیت بیرون ملک بھی پذیرائی ملی ہے۔ اب تو مسجد حرام میں بھی ایسے اسپیشل افراد کیلئے خصوصی کلاسز چل رہی ہیں۔
الرئاسۃ العامۃ لشئون الحرمین نے ایسے بچوں کیلئے حفظ کا بھی ایک حلقہ قائم کیا ہے۔ جبکہ جدہ کی “جمعيۃ خیرکم” کے مدیر انجینئر عبد العزيز بن عبد الله حنفی کے مطابق ہم نے بھی دیگر اسپیشل افراد کے ساتھ گونگوں اور بہروں کیلئے حفظ قرآن کی کلاس قائم کی ہے۔ انہیں پہلے نورانی قاعدہ مخصوص طریقے پر اسکرین کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے۔ پھر ناظرہ کے ساتھ قرآن کی تفسیر بھی سمجھاتی ہے۔ بہت سے گونگے بہرے اب روانی سے لکھ بھی سکتے ہیں۔ پڑھانے والے معلمین سب اشاروں کی زبان کے ماہر ہیں۔ یہ کام حاجی سلیمان الراجحی کے تعاون سے چل رہا ہے۔ واضح رہے کہ سلیمان راجحی صاحب دنیا میں سب سے زیادہ خیراتی کام کرنے والے شخص ہیں۔ وہ ساٹھ ارب ریال کی جائیداد فی سبیل اللہ وقف کر چکے ہیں۔ جس میں القصیم میں واقع دنیا کا سب سے بڑا کھجوروں کا باغ بھی شامل ہے۔ بہرحال “خیرکم” ٹرسٹ نے بہروں اور گونگوں کیلئے کئی منفرد ایپس بھی تیار کی ہیں، جن کی مدد سے وہ بہ آسانی قرآن پڑھ سکتے ہیں۔ اب تو ان مخصوص افراد کی تعلیم قرآن کیلئے ایک الگ ویب سائٹ بھی لانچ ہو چکی ہے۔ https://nqdeaf.org/ اس ویب سائٹ میں ان کیلئے ہمہ اقسام کی معلومات موجود ہیں۔ اب طائف میں بھی ایسے بچوں کو حافظ بنانے کیلئے ایک مدرسہ شروع ہوچکا ہے۔ “جمعيۃ فرقان لتحفیظ القرآن” نامی اس مدرسے میں کئی بچے کتاب اللہ یاد کر رہے ہیں۔ زیر نظر ویڈیو اسی مدرسے کی ہے۔ گونگوں اور بہروں کو حفظ کرانے کا یہ منفرد طریقہ اب سعودی عرب کے بعد دوسرے ممالک میں بھی شروع ہو چکا ہے۔

کھلی غنڈاگردی، اسرائیل نے غزہ کیلئے انسانی امداد پر پابندی لگادی

چنانچہ انڈونیشیا کے ایک مدرسے میں گویائی سے محروم بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے، ساتھ ہی ان طالب علموں کو حفظ کرانے کے لیے بھی خاص کلاسز کا انعقاد کیا جانے لگا ہے۔ مدرسے کے ایک معلم کا کہنا ہے اس قسم کے بورڈنگ اسکول انتہائی کم ہیں، جہاں اس طرح تعلیم دی جاتی ہے اور گویائی سے محروم طالب علموں پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ عام طور پر مدرسے میں حفاظ کرام تلاوت کلام پاک کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ آواز بھی بلند ہوتی ہے اور دھیان بھی صرف تلاوت پر ہوتا ہے، لیکن یہ واحد مدرسہ ہے، جہاں حفاظ کرام خاموشی کے ساتھ بڑے ہی پرسکون ماحول میں قرآن کو سمجھتے ہیں اور حفظ کرتے ہیں۔ معلم کلاس میں موجود وائٹ بورڈ پر آیت لکھتے ہیں اور پھر اسے اشاروں کی زبان میں حفاظ کرام کو سمجھاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کو اشاروں کی زبان میں سمجھنے کے لیے بھی باقاعدہ طور پر اشارے متعین کیے گئے ہیں۔ یہاں بچے ہاتھوں کی مدد سے قرآن مجید کو یاد کرتے ہیں، جبکہ چہرے پر اطمینان ہوتا ہے اور ماحول بھی خاموش ہوتا ہے۔
اسی طرح اب یہ سلسلہ ترکیا میں بھی شروع ہوچکا ہے۔ فروری 2020ء میں ترک ریاست ’’ہکاری‘‘ میں 5 اسپیشل طلبہ نے اشاروں کی زبان میں قرآن کریم کا حفظ مکمل کرلیا۔ ترک وزارت مذہبی امور کی جانب سے ان پانچوں حفاظ کرام کو عمرے کیلئے دیار مقدسہ بھیجا گیا۔ ہکاری کے دینی مدرسے ’’معہد لتحفيظ القرآن الکریم‘‘ میں 7 گونگے حفظ قرآن کے ساتھ اسلامی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے 5 نے قرآن کریم کا حفظ بھی مکمل کر لیا۔ انہیں اشاروں کی زبان کے ماہر استاذ شیخ یاسین اقشان نے کلام الٰہی حفظ کروایا۔

ٹرمپ اور زیلنسکی کے جھگڑے کے دوران انتہائی پریشان یوکرینی خاتون سفیر کی ویڈیو وائرل

یاسین اقشان وہاں کی مرکزی مسجد کے بھی امام ہیں۔ اب وہ ان معذور بچوں کو فقہ اور سیرت نبویؐ بھی پڑھا رہے ہیں۔ ترک خبر رساں ادارے اناطولیہ سے بات چیت کرتے ہوئے شیخ یاسین کا کہنا تھا کہ اس مدرسے میں اشاروں کی زبان سے تعلیم دینے کا سلسلہ 2015ء میں شروع ہوا تھا۔ جو کہ ایک منفرد تجربہ ہے۔ ان بچوں کو ہم نے 2016ء میں حفظ قرآن شروع کرایا تھا۔ اب 4 برس میں ان میں سے 5 نے یہ سعادت حاصل کرلی۔ ان کے اعزاز میں حکومت نے انہیں عمرے پر بھیج دیا۔ دوسری جانب بہرے حافظ قرآن اویس اشقان نے حرم شریف پہنچ کر ترک وزارت مذہبی امور کا شکریہ ادا کیا ہے اور حفظ قرآن کا کریڈٹ اپنے استاذ شیخ یاسین اشقان کو دیا ہے۔ (الجزیرہ)

Related Posts