پاکستان کے معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات کو آج 24 برس مکمل ہوگئے جبکہ ملک کیلئے ان کے اہم کارنامے آج بھی ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہیں۔
ملک کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے فزکس کے مضمون میں نوبل پرائز حاصل کرکے وطن کا نام روشن کردیا۔ آئیے ڈاکٹر عبدالسلام کی ذاتی زندگی، کارناموں اور خدمات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی کا مختصر جائزہ
معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام 29 جنوری 1926 ء کے روز صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہوئے جبکہ ان کے والد کا نام محمد حسین تھا۔
قیامِ پاکستان سے قبل جس سال قراردادِ پاکستان پیش کی گئی، یعنی 1940ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے رامانوجن کے ایک مسئلے کے حل پر اپنا پہلا مقالہ تحریر کیا۔
چار سال بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے گریجویشن اور 1946ء میں ماسٹرز کیا جبکہ دونوں سطحوں پر ریاضی ان کا منتخب مضمون رہا۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے بہترین نمبرز کے ساتھ ایم ایس سی کرنے پر ڈاکٹر عبدالسلام کو کیمبرج یونیورسٹی سے اسکالر شپ مل گئی اور 1946ء میں ہی وہ برطانیہ روانہ ہو گئے۔
کیمبرج سے ڈاکٹر عبدالسلام نے ڈاکٹریٹ کیا اور سن 1951ء میں وطن لوٹ آئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور اور جامعہ پنجاب کیلئے درس و تدریس کا شعبہ اپنایا۔
ایک معلم کے طور پر 1954ء میں ڈاکٹر عبدالسلام برطانیہ چلے گئے اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔فزکس کے میدان میں ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات آج بھی سائنس کے کام آرہی ہیں
سائنسی و تحقیقی کام
پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کوئی عام سائنسدان یا پروفیسر نہیں تھے۔ ان کا نظری طبیعیات پر کام اتنا معیاری اور اتنا زیادہ ہے کہ اس سے بیش بہا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے نظری طبیعیات اور تیسری دنیا کے سائنسی و تعلیمی مسائل پر 300 سے زائد مقالے تحریر کیے ہیں جس کیلئے شدید ذہنی محنت و مشقت اور ایک طویل ریاضت درکار ہوتی ہے۔
زندگی کے واقعات
جب ڈاکٹر عبدالسلام پی ایچ ڈی کر رہے تھے، تو انہوں نے ڈاکٹریٹ کیلئے بہت مشکل مسئلہ منتخب کرکے اسے 3 ماہ کی ریکارڈ مدت میں حل کیا لیکن کیمبرج یونیورسٹی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں دی۔
یونیورسٹی قواعد کے تحت ڈاکٹر عبدالسلام نے 3 سال تک انتظار کیا جس کے بعد سن 1952ء میں عبدالسلام ڈاکٹر بن گئے جس سے 1 سال قبل انہیں پرنسٹن یونیورسٹی امریکا میں انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کی فیلوشپ ملی تھی۔
انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی میں فزکس کے مایہ ناز سائنسدان آئن اسٹائن لیکچر دیا کرتے تھے جہاں آئن اسٹائن سے گفتگو کا موقع بھی ملا۔
پرنسٹن میں تعلیم کے دوران آئن اسٹائن سے ملاقات ہوئی جس کے دوران ڈاکٹر عبدالسلام سے آئن اسٹائن نے سوال کیا کہ آپ کا موضوعِ تحقیق کیا ہے؟
ری نارملائزیشن تھیوری پر کام کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام نے انہیں اپنا موضوع بتایا تو آئن اسٹائن نے کہا کہ میں اس موضوع میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ آئن اسٹائن نے ڈاکٹر عبدالسلام سے پھر پوچھا کہ کیا آپ نے میری تھیوری آف ریلیٹیویٹی کا مطالعہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ مجھے آپ کی تھیوری میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ واقعہ زکریا ورک کی کتاب ڈآکٹر عبدالسلام، چیمپین آف سائنس اِن تھرڈ ورلڈ میں تحریر ہے۔
اعزازات اور سندِ امتیاز
سن 1979ء وہ سال ہے جب ڈاکٹر عبدالسلام نے فزکس میں اعلیٰ ترین مہارت کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام سے نوازا گیا اور مختلف نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری اور سندِ امتیاز سے نوازا۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق 36 یونیورسٹیز نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں اور 22 ممالک نے مختلف النوع اعلیٰ اعزازات سے نوازا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان تھے جن کی تصنیف و تحقیق سے پاکستان خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا۔
حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر عبدالسلام کو تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور نشانِ امتیاز جیسے قومی اور اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا۔
دیگر ممالک نے ڈاکٹر عبدالسلام کو مختلف اعزازات سے نوازا جن میں اردن سے نشانِ استقلال، وینوزیلا سے نشانِ اندرے بیلو، اٹلی سے نشانِ میرٹ، میکسویل میڈل اور آئن اسٹائن میڈل شامل ہیں۔
قومی سطح پر اہمیت
مذہبی بنیادوں پر ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان میں وہ اہمیت کبھی نہیں دی گئی جو دیگر سائنسدانوں کو دی جاتی ہے جس کی وجہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں نئی نسل اتنا بھی نہیں جانتی جتنا کہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی یا ڈاکٹر عبدالقدیر کے بارے میں جانتی ہے، حالانکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق ڈاکٹر عبدالسلام کی اہمیت دیگر سائنسدانوں سے زیادہ ہے۔
عالمی سینٹر کیلئے جدوجہد اور عزم و ہمت
جب ڈاکٹر عبدالسلام عالمی سینٹر برائے نظریاتی فزکس بنانے کیلئے نکلے تو مغربی مالک نے تعاون سے انکار کردیا۔ پھر بھی ان کا عزم و حوصلہ کم نہ ہوسکا۔
سیٹر بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح دیگر سائنسدانوں اور محققین کو طبیعیات پر کام کیلئے ملک نہ چھوڑنا پڑے۔ 3 ماہ کیلئے یہاں محققین اور سائنسدان آتے ہیں، اپنا کام کرتے ہیں اور وطن واپس چلے جاتے ہیں۔ آج بھی یہ سینٹر ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے قائم ہے۔
جو نہیں ہوا اور جو ہوسکتا تھا
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر پاکستان میں کوئی قومی دن، کوئی سڑک یا کوئی شہر منسوب نہیں ہے جبکہ ان کی ملک کیلئے خدمات دیگر سائنسدانوں سے کہیں بڑی اور اہم ہیں۔
مثال کے طور پر ڈاکٹر عبدالسلام سن 1960ء میں پاکستان میں مشیرِ سائنس رہے اور ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ سن 1974ء میں وہ اس عہدے سے الگ ہو گئے۔
زراعتی و نظریاتی طبیعیات پر مہارت رکھنے والے ڈاکٹر عبدالسلام پاکستانی خلائی ادارے (اسپارکو) کے اولین بانیوں میں سے ایک ہیں جو آج کل وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے مطابق پاکستانیوں کو چاند پر بھیج سکتا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس و ٹیکنالوجی جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں قائم ہوا، اس کی بنیاد ڈاکٹر عبدالسلام نے رکھی تھی۔ سن 1998 ء میں جب پاکستان ایٹمی قوت بنا اور ایٹمی بم دھماکوں کا کامیاب تجربہ ہوا تو ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کی تعریف کیلئے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔ پھر بھی ان کی خدمات یاد کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی قومی دن ضرور ہونا چاہئے۔