ڈاکٹرز کورونا وائرس کا شکار ہسپتالوں میں زیرِ علاج مریضوں کی زندگیاں ایک پرانے طریقہ علاج کے ذریعے بچا رہے ہیں جو پہلے بھی طبی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔
لنکاسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر لوگی سیڈا نے پرانے طریقہ علاج کے حوالے سے مختلف ہسپتالوں میں تحقیق کی جس کے نتائج عالمی طبی جریدے بی ایم جے رسپریٹری اوپن میں شائع ہوچکے ہیں۔این ایچ ایس انگلینڈ کے مطابق کورونا وائرس سے مرنے والے 96 فیصد لوگ کم از کم ایک سنگین بیماری میں پہلے ہی مبتلا تھے جبکہ اکثریت کی عمریں 80 سال سے زائد رہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ اشیش کی قیادت میں تحقیقاتی ٹیموں نے کورونا وائرس کے مریضوں پر سی پی اے پی مشینوں کا استعمال کیا جو ویگان میں رائل البرٹ ایڈورڈ انفرمری ہسپتال میں داخل تھے۔ ایسے مریض جو شدید سانس لینے کی تکلیف میں مبتلا تھے، ان کے پھیپھرے پھول سکتے ہیں اور تباہ بھی ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ سی پی اے پی کا علاج اکثر گھر میں نیند کی کمی اور دیگر مسائل کا شکار افراد کی مدد کیلئے کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ پھیپھڑوں کو کھلا رکھنے اور سانس لینے میں مدد کرتا ہے۔
کونٹینوز پازیٹو ائیر وے پریشر (سی پی اے پی) طریقہ کار پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ جن ممالک میں سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنے والے مریضوں کیلئے انتہائی نگہداشت کے بیڈز کم ہیں، وہاں یہ طریقہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اب تک رائل البرٹ ایڈورڈ انفرمری کے 100 کے قریب کورونا کے مریض اِس طریقے سے مدد حاصل کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر اشیش کے مطابق جب ابتدائی طور پر سی پی اے پی کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مریض کی حالت خراب ہونا بند ہوجاتی ہے جس سے سانس لینے کی جارحانہ تکنیک سے نجات ملتی ہے۔ چونکہ یہ تکنیک آسانی سے دستیاب ہے اور اسے وارڈ کی ترتیب میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اس لیے ہم اسے شدید علامات والے کورونا کے علاج میں کارگر سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال، 6 ماہ میں موٹر سائیکل کار تیار