حماس نے 34 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی کے معاہدے اور اسرائیل کے درمیان جاری بالواسطہ مذاکرات کے دوران سامنے آیا ہےکے “پہلے مرحلے” کے حصے کے طور پر آزاد کرنے پر اتفاق کیا ہے، جو حماس۔ قطر، مصر اور امریکہ نے اس معاہدے کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا ہے ۔ یہ بات چیت کئی مہینوں سے جاری تھی، مگر تازہ ترین پیش رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسرے دور کے آغاز کے قریب سامنے آئی ہے، جس سے یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ کے دباؤ نے اس معاہدے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔
نومبر میں دوبارہ انتخاب جیتنے کے بعد، ٹرمپ نے حماس کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے 20 جنوری تک اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو سنگین نتائج کا سامنا کرناہوگا۔ 6 جنوری تک، ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے الٹی میٹم کا حماس کی فیصلہ سازی پر اثر پڑا ہے۔
ٹرمپ کی حلف برداری کے دوران امریکی پرچم سر نگوں ہوگا، مگر کیوں؟
حماس کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ گروپ 34 یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے، جن میں خواتین، بچے، بوڑھے افراد اور بیمار قیدی شامل ہیں۔ تاہم، رہائی کی تصدیق کے لیے ان کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت درکار ہوگا۔ یہ یرغمالی 251 اسرائیلی قیدیوں کے گروہ کا حصہ ہیں، جنہیں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے دوران یرغمال بنایا گیا تھا، جس سے غزہ کی جنگ کا آغاز ہواتھا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ترجمان نے کہا کہ حماس نے ابھی تک یرغمالیوں کی فہرست فراہم نہیں کی، حالانکہ قطر میں بالواسطہ بات چیت جاری ہے۔ یہ بات چیت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اسرائیلی فضائی حملے غزہ میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، اور تنازعے میں ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں غزہ میں کم از کم 88 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔
مذاکرات میں حالیہ پیش رفت اس بات کی قیاس آرائی کرتی ہے کہ آیا ٹرمپ کے دباؤ نے اس معاہدے میں کوئی کردار ادا کیا۔ اسرائیل اور حماس دونوں کو اس تنازعے میں جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے، اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ جنگ سے متاثرہ خاندانوں کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔
جیسے جیسے ٹرمپ کی افتتاحی تقریب قریب آ رہی ہے، دنیا اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ کیاحماس اور اسرائیل کے درمیان کشیدہ مذاکرات میں مزید پیش رفت ہو سکے گی۔