ڈھاکہ یونیورسٹی نے پاکستانی طلبہ پر پابندی ختم کردی

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Dhaka university lifts ban on Pakistani students

ڈھاکہ یونیورسٹی نے پاکستانی طلبہ پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے دو طرفہ تعلیمی تعلقات کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

پرو وائس چانسلر (ایڈمن) پروفیسر صائمہ حق نے اعلان کیا کہ اب ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیشی طلبہ کو بھی پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

یہ فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی تعاون کو بڑھانے کے مقصد سے کیا گیا ہے۔

پیر کے روز پروفیسر صائمہ حق نے بتایا کہ یہ فیصلہ تب نافذ ہوگا جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر نیاز احمد خان، متعلقہ دستاویزات پر دستخط کریں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وائس چانسلر اس وقت بیرون ملک ہیں۔

یہ قدم اس وقت اٹھایا گیا جب ڈھاکہ یونیورسٹی کو پاکستان کی جانب سے سیمینارز اور اسکالرشپ کی پیشکش موصول ہوئیں جو طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں گی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کل سوشل میڈیا کی حدودو قیود کا شرعی جائزہ لے گی

پروفیسر صائمہ حق کے مطابق، یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ نے ان تجاویز کو متفقہ طور پر منظور کر لیا جب وائس چانسلر نے انہیں پیش کیا۔

یہ فیصلہ یونیورسٹی کی پالیسی میں ایک بڑا تبدیلی ہے، جس کا مقصد طلبہ اور اساتذہ کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی تبادلوں کو بحال کرنا ہے۔

واضح رہے کہ 14 دسمبر 2015 کوڈھاکہ یونیورسٹی کے اُس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر اے اے ایم ایس عارفین صدیقی کی قیادت میں سنڈیکیٹ نے پاکستانی اداروں کے ساتھ تمام تعلیمی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس پابندی کے تحت ڈھاکہ یونیورسٹی کے نمائندوں، اساتذہ اور طلبہ کو پاکستانی اداروں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے سے روکا گیا تھا۔

Related Posts