مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مساجد گرانے سے گریز کیا جائے، حافظ حمد اللہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مساجد گرانے سے گریز کیا جائے، حافظ حمد اللہ
مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مساجد گرانے سے گریز کیا جائے، حافظ حمد اللہ

کراچی: جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما اور پی ڈی ایم ترجمان سابق سینیٹر حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مساجد گرانے سے گریز کیا جائے اس مسجد کا دفاع کرناز ہمارا ایمانی,دینی اور اسلامی فریضہ ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدینہ مسجد طارق روڈ کے سامنے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر جے یوآئی کے صوبائی رہنماؤں مولانا محمد غیاث، قاری محمد عثمان، مولانا سمیع الحق سواتی، شرف الدین اندھڑ، مولانا حماداللہ شاہ سمیت مسجد کمیٹی کی انتظامیہ کے اراکین بھی موجود تھے۔

سابق سینیٹرحافظ حمداللہ نے کہا کہ مدینہ مسجد چندے سے بنائی گئی ہے، عدالتی فیصلوں پر عمدرآمد میں دوہرا معیار ہے، ملک ریاض کو غیرقانونی زمینیں ریگولرزائزڈ کراکے دی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قوم یہ سوال کرتی ہے مدینہ کی ریاست کے عملبردار کو جواب دینا ہوگا عمران خان نے بنی گالہ کے بارے میں کاغذات منگوائے تووہ غیرقانونی نکلی،عمران خان کی تین سو کنال غیرقانونی زمین ریگولرائز کردی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم گزارش کریں گے کہ قائد اعظم سے جب پوچھا گیا پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو انہوں نے کہا دستور قرآن ہوگا، پاکستان کے اسلامی آئین میں مسجد بنانے کی ہدایت ہے گرانے کی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ چالیس سال پہلے جب مسجد بن رہی تھی اداروں کو اس وقت ہوش نہیں آیا یہ مسجد غیرقانونی نہیں بلکہ جگہ سوسائٹی سے خرید کر نقشہ پاس کرواکر بنائی گئی عدالت پارک بنانا چاہتی ہے جبکہ عوام کہ چاہت ہے اسے مسجد رہنے دیا جائے۔

مزید پڑھیں: متبادل زمین ملنے تک مدینہ مسجد نہ گرائی جائے، چیف جسٹس نے انہدام روکنے کی استدعا مسترد کردی

انہوں نے کہا کہ قریب ہی جھیل پارک ہے پہلے اسے فعال کرکے سہولیات دی جائیں، مدارس یا دینی اداروں نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا۔

Related Posts