تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کے ملکی معیشت پر ممکنہ اثرات و مضمرات

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کے ملکی معیشت پر ممکنہ اثرات و مضمرات
تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کے ملکی معیشت پر ممکنہ اثرات و مضمرات

تیل کی قیمتوں پر روس اور اتحادی ممالک (امریکا اور عرب ممالک) کے درمیان عالمی جنگ گزشتہ کچھ عرصے سے جاری تھی جس میں روس نے سب کو ہرا کر پوری دنیا  کو حیران کردیا ہے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 1 ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہو گئیں اور پھر بلوم برگ نے وہ تاریخی رپورٹ دی جس کے مطابق تیل کی قیمتیں منفی میں چلی گئیں۔امریکی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں 91 فیصد کی کمی ہوئی۔ 

قیمتوں کا منفی میں جانا تو خیر ایک وقتی عدم استحکام کہا جاسکتا ہے جس کے پیشِ نظر امریکا اور کینیڈا میں کمپنیوں نے حکومت سے امداد طلب کر لی۔ گزشتہ روز ویسٹرن کینیڈین آئل کے ایک بیرل کی قیمت منفی 0 اعشاریہ 15 ڈالر ہو گئی۔ 

کورونا وائرس، لاک ڈاؤن اور تیل کی قیمتیں

یہ بات سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے دنیا بھر کی حکومتیں باقی تمام مسائل کو بالائے طاق رکھ کر عوام کی صحت پر توجہ دے رہی ہیں۔

کورونا وائرس کے باعث دنیا کے 190 سے زائد ممالک پریشان حال ہیں جہاں 24 لاکھ 82 ہزار سے زائد افراد وائرس سے متاثر جبکہ 1 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث سال 2021ء تک 9 ٹریلین یعنی 90 کھرب ڈالرز  کا نقصان ہوگا۔

وائرس کے باعث کیے جانے والے لاک ڈاؤنز کے باعث دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس کریش کر رہی ہیں اور شیئرز کی قیمیتں گر رہی ہیں، ایسے میں تیل کی قیمتوں میں کمی اچھی خبر ہے۔

طلب اور رسد کا اصول

معیشت کا اہم اصول یہ ہے کہ جب کسی چیز کی طلب کم ہوتی ہے تو اس کی قیمت میں کمی پیدا ہوتی ہے۔ اگر کسی چیز کی طلب زیادہ ہو تو اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ جس چیز کا ڈھیر لگا ہوا ہو اور خریدار کم ہوں، دکاندار مجبوراً اس کی قیمت کم کرنے پر راضی ہوجاتا ہے جبکہ اگر صورتحال برعکس ہو تو قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔

اگر خریدار بہت زیادہ ہوں اور جو چیز بیچنی  ہے، وہ مقدار میں کم ہو تو ایسی چیز زیادہ قیمت میں بکتی ہے جس سے مہنگائی پیدا ہوتی ہے۔

یہی اصول تیل کی قیمتوں پر بھی عائد ہوتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث عوام گھروں میں محصور ہیں۔ تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں اور آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق لاک ڈاؤن کے باعث دنیا کا 80 فیصد علاقہ بند ہے جبکہ صرف 20فیصد علاقوں میں معمول کے مطابق آمدورفت جاری ہے۔ 

جسے موٹر سائیکل یا گاڑی چلا کر دفتر پہنچنا ہے وہ آج بھی پٹرول خرید کر ٹنکی فل کروائے گا لیکن غور کیا جائے تو عوام کی اکثریت آج کل گھروں تک محدود ہے۔

گھروں تک محدود رہنے والے عوام کیلئے پٹرول خریدنا یا نہ خریدنا ایک غیر متعلقہ بات بن چکی ہے، اس لیے تیل کی طلب صفر ہو گئی ہے جس سے اس کی قیمتیں کم ہوئیں۔

ماہرِ معاشیات مزمل اسلم کے مطابق چونکہ تیل کی پیداوار بے حد زیادہ اور خریدار بے حد کم ہیں، اس لیے تیل کو ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے، اس لیے وہ مفت بھی دیاجاسکتا ہے۔

روس ، امریکا اور عرب ممالک کی جنگ 

تیل کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئیں تو عرب ممالک اور امریکا ٹھیکیدار بن کر سامنے آ گئے۔ روس تیل کی قیمتوں پر منفی طریقے سے اثر انداز نہیں ہونا چاہتا تھا، اس لیے وہ غیر جانبدار تھا۔

ملکی معیشت کیلئے صرف تیل پر بھروسہ کرنے والے عرب ممالک کیلئے تیل کی قیمتوں میں کمی زہرِ قاتل سے کم نہیں کیونکہ تیل کے علاوہ ان ممالک کے پاس ذریعۂ آمدنی اور کچھ نہیں۔

دوسری جانب روس ہے جو دنیا کی 14ویں بڑی برآمدی معیشت کہلاتی ہے۔ معاشی پیچیدگی کے انڈیکس (ای سی آئی) کے مطابق روس 27ویں سب سے پیچیدہ معیشت ہے۔

بلا شبہ روس سب سے زیادہ پٹرول برآمد کرتا ہے، تاہم پٹرولیم گیس، کوئلہ، گندم، ادویات، کاریں،   جہاز، ہیلی کاپٹر اور دفاعی سازوسامان بھی اس کی اہم برآمدات ہیں۔

اس  لیے روس نے تیل کی قیمت میں کمی کا زیادہ اثر نہ لیتے ہوئے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا، تاہم عرب ممالک نے روس سے تیل کی سپلائی کم کرنے کا مطالبہ کیا جس سے بات خراب ہو گئی۔

روس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ عرب ممالک کے پیچھے امریکا ہے جو انہیں شہ دے رہا ہے جس کے پیشِ نظر اس نے تیل کی رسد میں کمی نہ لانے کا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا۔

عرب ممالک نے جب یہ روش دیکھی تو سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان نے اچانک تیل کی رسد بڑھا دی جس سے ان کا مقصد روس کو حیران کرنا تھا لیکن یہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔

رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی کیونکہ تیل پر جنگ اس سے پہلے چلی آرہی تھی اور وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آج تیل کی قیمتیں ہمارے سامنے ہیں۔ 

تیل کی قیمت کا پاکستان پر اثر

حکومتِ پاکستان تیل کی قیمتوں میں کمال تدبر سے کام لے رہی ہے یعنی بین الاقوامی مارکیٹ میں جب تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے زیادہ اضافہ پاکستان میں کردیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس جب قیمتوں میں کمی لائی جاتی ہے تو وفاقی حکومت اس کمی کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچنے دیتی بلکہ یہ فائدہ وفاقی حکومت کے عہدیدار لے اڑتے ہیں یا کسی الگ جگہ اسٹور کر لیا جاتا ہے۔

بلا شبہ کورونا وائرس نے پاکستانی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے جبکہ پاکستان تیل درآمد ہی نہیں کررہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث تیل کی درآمد پر پابندی عائد ہے۔

ماہرینِ معیشت کے مطابق تیل کی قیمت صفر ہو یا منفی میں چلی جائے، پاکستان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر آج تیل خرید کر ملک میں کسی طرح لایا جائے تو اس کا فائدہ ہوسکتا ہے جو ممکن نہیں۔

تیل خرید کر پاکستان میں لانا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ پاکستان میں درآمد پر پابندی اور تیل خرید کر لانے کے دیگر عالمی لوازمات ایک روز میں پورے نہیں کیے جاسکتے جبکہ اگلے روز تیل کی قیمت ایک بار پھر بڑھ جائے گی۔ 

تیل کی قیمتوں میں کمی سے متاثرہ ممالک 

سعودی عرب اور تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ روس کو تیل کی قیمتوں میں کمی سے سب سے زیادہ دھچکا پہنچے گا جبکہ امریکی معیشت کو بھی پاکستان کی طرح اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس  کی وجہ یہ ہے کہ امریکا ایک بہت بڑی معیشت ہے۔  امریکی معیشت کا دارومدار تیل کی بجائے دیگر مصنوعات پر ہے جن میں مشینری، دفاعی سازوسامان اور گاڑیاں اہم ہیں۔

اگر ہم فائدہ اٹھا سکتے؟

بے شک تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کا فائدہ پاکستان درآمدات پر پابندی کے باعث نہیں اٹھا سکتا لیکن یہ سوال پھر بھی اہم ہے کہ اگر ہم مستقبل قریب میں اس کا فائدہ اٹھا سکیں تو وہ کیا ہوگا؟

تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کا ہر شعبہ بالخصوص ٹرانسپورٹ، نقل و حمل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہوگی۔ ملکی معیشت میں استحکام آئے گا۔

بظاہر تیل کی قیمتوں سے سبزی، پھل اور اشیائے ضروریہ کا کوئی تعلق نہیں، تاہم تیل کی قیمتوں میں اضافے پر اشیائے ضروریہ سمیت ہر چیز کی قیمت یہ کہہ کر بڑھا دی جاتی ہے کہ یہ چیزیں ہم فلاں جگہ سے ٹرانسپورٹ کے ذریعے لاتے ہیں۔

جب بھی تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ اگر حکومتِ پاکستان تیل کی قیمتیں پاکستان میں 60 فیصد بھی کم کردے اور ٹرانسپورٹ کو بھی پابند کرے تو شہریوں کو بے مثال فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

Related Posts