موجودہ حکومت اپنے قیام سے اب تک 15ماہ میں انتخابی مہم کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں میں سے اکثر کو پورا کرنے میں ابھی تک کامیاب نظر نہیں آتی جس کی بظاہر وجہ پاکستان کی بیوروکریسی یعنی اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے سینئر سرکاری حکام ہیں ۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے بعض سنگین نوعیت کے تحفظات کے باعث بیوروکریٹس سست رفتاری یا گو سلو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جسے وزیراعظم عدم تعاون قرار دیتے ہیں۔
وفاق اور پنجاب میں انتظامی امور بہتر بنانے کیلئے بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبادلوں اور تقرریوں کا اعلان کیا گیا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ بیوروکریسی میں ردوبدل سے حکومت کاانتظامی کنٹرول بہتر ہوگا۔
یہاں اصل معاملہ بیوروکریسی سے کام لینے کا ہےاگر وفاقی اور صوبے کی سطح پر وزراء محنت اور لگن سے کام کریں اور اپنے ماتحت افسروں سے کام لینے کی پالیسی پر عمل کریں گے تو بیوروکریسی کام کریگی اور اس کے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔
موجودہ حکومت وفاقی اور صوبائی سطح پر گزشتہ سال ڈیڑھ سال میں کئی افسروں کے تبادلے کرکے دیکھ چکی ہے تاہم اسے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پائے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر وفاقی وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی پہلی بار اہم ریاسی مناصب پر کام کر رہے ہیں۔
یہ ناتجربہ کاری ان وزراکی اپنے محکمے کے افسران کے ساتھ اکثر کشیدگی کا اس وقت باعث بنتی ہے جب وزراکوئی کام کرنا چاہتے ہیں اور بیوروکریسی کی جانب سے انھیں بتایا جاتا ہے کہ قواعد کی رو سے وہ یہ حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے بلکہ یہ کام تو ایک کمیٹی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی وزرا سرکاری کاموں کوغیر روایتی اندازسے کرنے کے شوق میں قواعد سے رو گردانی کرتے ہیں اور بیوروکریسی سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں جو ظاہر ہے جب پوری نہیں ہوتی تو گلے شکوے پیدا ہوتے ہیں۔
سرکاری افسر ان کے بقول جو جملہ انھیں ان وزرا سے اکثر سننے کو ملتا ہے وہ ہے ’نئے پاکستان میں ایسے نہیں چلے گا‘۔ اب ان وزرا کو کون بتائے کہ پاکستان تو شاید نیا بن گیا ہے لیکن حکمرانی کے قواعد یعنی رولز آف بزنس وہی پرانے ہیں جو برطانوی افسر شاہی نے تحریر کیے تھے۔
اب وفاقی اور پنجاب کابینہ میں شامل وزراء کواپنی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ وہ سول سروس کے ارکان سے بہتر انداز میں کام لیں اور خود انہیں استعداد کار اور قائدانہ صلاحیتوں کو تیز بنائیں تو اس صورت میں حکومتی کارکردگی بہتر ہو سکتی اور عوام کے مسائل حل کرکے انہیں مطمئن کیا جاسکتا ہے۔