کورونا ویکسین اور افواہیں

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک ایرانی عالم دین کا کہنا ہے جو لوگ کووڈ 19 ویکسین لگوا رہے ہیں ان میں جنیاتی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ ایرانی عالم دین کے مطابق اگر یہ ویکسین عورت کو لگے تو بہت ممکن ہے کہ وہ عورتوں کی جانب مبذول ہو جائے اور اگر یہ مرد کو لگی تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہم جنس میں مبتلا ہوجائے۔ یہ ویکسینیشن کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے والی غلط فہمیوں میں سے سب سے بڑی غلط فہمی ہے جو آنے والی نسلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

جیسے ہی کورونا ویکسین دنیا میں عام عوام کے لئے دستیاب ہوئی ہے سوشل میڈیا پر اس کے استعمال کے خلاف ایک مہم چلا دی گئی ہے ۔ کورونا وائرس کی پہلی وبا کے دوران ان تنقید کرنے والوں نے اس میں گزار دیا کہ ویکسین کب آئے گی اب جبکہ ویکسین آگئی ہے انہوں نے اب دوسرے زاویے اس کے خلاف مہم شروع کردی ہے۔

انڈیا میں ایک مقامی لیڈر نے یہاں تک کہہ دیا کہ کورونا ویکسین کا مقصد آبادی کو روکنا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کورونا وائرس مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کی سازش ہے۔ بل گیٹس نے کچھ عرصہ قبل یہ تجویز دی تھی کہ لوگوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کے لئے مائیکروچپس کو انسانی جسم لگایا جائے تاکہ دنیا میں دہشتگردی کے خلاف موثر کام کیا جاسکے۔ غلط فہمیاں پھیلانے والوں کا کہنا ہے یہ ویکسین اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

امریکی میگزین بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، متعدد پاکستانی شہری جو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں اسی طرح کی ہچکچاہٹ ظاہر کرتے ہیں اسی طرح ویکسین لینے سے انکار کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ویکسینیشن مسلمانوں کے خلاف سازش چلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی بھی پولیو کے خاتمے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یہ شرم کی بات ہے کہ پولیو کا مرض اب دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان میں پایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سوشل میڈیا کو منفی سوچ پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہم سب اور جھوٹ کی پرکھ کے لئے تحقیق نہیں کرتے۔

یہ غلط فہمیاں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ایسی تنظیمیں جو کووڈ کو ایک سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان تنظیموں میں اسٹینڈ اپ ایکس ، اسٹاپ نیو نارمل اور سیو دا رائٹس آف یوکے ہیں ۔ یہ گروپ اکثر چندہ جمع کرکے رقم کماتے ہیں۔

دنیا بھر کے ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم سب کووڈ 19 ویکسین لینی چاہیے اور اس کو لازمی حاصل کرنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین میں موجود تمام اجزاء کی بھاری جانچ کی جاتی ہے تاکہ یہ یقینی ہو کہ اس میں موجود ہر شے انسانوں کے لئے محفوظ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کبھی بھی کسی انسان کو دیا جاتا ، جانوروں پر ان کا تجربہ کیا جاتا تھا۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی دوا تیار کی جاتی ہے تو سب سے پہلے اس کا استعمال جانوروں پر کیا جاتا ہے تاکہ پتا  چل سکے کہ اس دوا کے کوئی سائیڈ افیکٹس تو نہیں اس کے بعد انسانوں کی دی جاتی ہے ۔ دوا کو کئی کلینیکل ٹرائلز سے گزارا جاتا ہے۔

آپ جب بھی کووڈ 19 ویکسین سے متعلق کوئی پوسٹ یا ہیڈ لائن سوشل میڈیا پر دیکھیں تو ایک منٹ کے لئے رک جائیں اور اس کو آگے بھیجنے سے پہلے تحقیق کرلیں کہ ویکسین سے متعلق لگائی گئی پوسٹ سچ بھی ہے یا پھر صرف سنسنی پھیلانا مقصد ہے۔

کورونا ویکسین سے متعلق پھیلائی جانے والی افواہیں جلد یا بادیر ختم ہوجائیں گی۔ آپ اپنے معالجین پر مکمل بھروسہ رکھیں جیسا کہ آپ اس ویکسین کے آنے سے پہلے کرتے تھے۔

Related Posts