کورونا کی روک تھام، ایس او پیز کی خلاف ورزیاں اور خود احتسابی کا عمل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا کی روک تھام، ایس او پیز کی خلاف ورزیاں اور خود احتسابی کا عمل
کورونا کی روک تھام، ایس او پیز کی خلاف ورزیاں اور خود احتسابی کا عمل

کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے رہنما ہدایات کو ایس او پیز کہا جاتا ہے جن کی خلاف ورزی پاکستان بھر میں زور و شور سے بلکہ نہایت اہتمام کے ساتھ جاری و ساری ہے جس کے دوران ایک خوش آئند اقدام دیکھنے میں آیا جسے خود احتسابی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے کچھ سیکنڈز کیلئے کورونا وائرس ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا ماسک اتار دیا جس پر ایک صحافی نے ان کی تصاویر اتار لیں۔ انہوں نے ماسک بھی دوبارہ پہنا اور واقعے کی ذمہ داری لیتے ہوئے قومی خزانے میں 1000 روپے بطور جرمانہ جمع کرانے کا وعدہ کیا۔ 

آج ہی نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے واٹس ایپ نمبر جاری کیا جس پر کورونا وائرس ایس او پیز کی خلاف ورزی کی شکایت کی جاسکتی ہے۔ آئیے سب سے پہلے کورونا وائرس کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایس او پیز پر عمل درآمد کیوں ضروری ہے اور خود احتسابی کس حد تک کار آمد ثابت ہوسکتی ہے؟

کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال

ملک بھر میں کورونا وائرس سے 3 لاکھ 33 ہزار کے لگ بھگ افراد متاثر ہوئے، 6 ہزار 806 افراد انتقال کرچکے جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران نئے کیسز 807 اور اموات 11 رہیں۔ 539 افراد صحتیاب بھی ہوئے جس سے کورونا کو شکست دینے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ 14 ہزار سے تجاوز کر گئی۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے فعال کیسز جو پہلے کم ہو رہے تھے، آج کل ایک بار پھر بڑھنے لگے ہیں۔ موجودہ فعال کیسز کی تعداد 12 ہزار 121 ہے۔ وائرس کے متاثرین، فعال کیسز اور اموات میں سندھ ملک بھر کے صوبوں سے آگے ہے۔ 

ایس او پیز کی خلاف ورزی 

عوام کو بار بار ہدایت کی جاتی ہے کہ بار بار اپنے ہاتھوں کو 20 سیکنڈز تک صابن سے دھوتے رہیں، ماسک ضرور پہنیں اور سماجی فاصلے کا سختی سے اہتمام کریں۔ یہ تمام ہدایات اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پراسیجر کہلاتی ہیں یعنی ایس او پیز، جن کی پاکستانی عوام پابندی نہیں کرتے۔

آپ پاکستان کے کسی بھی شہر یا گاؤں میں چلے جائیے اور شادی بیاہ سے لے کر دیگر سماجی تقریبات اور جلسے جلوسوں تک تمام اجتماعات کا جائزہ لیجئے۔ دور کیوں جائیں، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے جلسوں کی ہی بات کر لیجئے۔

اپوزیشن جماعتوں کا گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں جلسہ ٹی وی پر سب نے دیکھا، کیا اس کے دوران کورونا وائرس ایس او پیز کی دھجیاں نہیں اڑائی گئیں؟ یہاں اپوزیشن یا حکومت کا کوئی مقابلہ نہیں، سرکاری تقریبات میں بھی ایس او پیز پر کتنا عمل درآمد کیا جاتا ہے، اس سے ہم سب خوب واقف ہیں۔

کراچی، لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں ٹرانسپورٹ کا نظام دیکھئے، پارکس میں عوام کی سیر و تفریح پر نظر ڈالیے، اسکولوں میں تعلیمی نظام اور مارکیٹ میں کاروبار کا جائزہ لیجئے، ہر جگہ کورونا وائرس ایس او پیز کی خلاف ورزی دھڑلے سے جاری ہے۔ 

ازالے کیلئے مثبت اقدام 

حکومت کو بھی احساس ہے کہ کورونا وائرس ایس او پیز کو عوام، سیاسی شخصیات اور شوبز ستاروں نے بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جس پر این سی او سی کے واٹس ایپ نمبر کو وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے عوام کے سامنے رکھ دیا۔

قبل ازیں وفاقی وزیر اسد عمر کورونا وائرس کی دوسری لہر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام جہاں بھی کورونا وائرس ایس او پیز کی خلاف ورزی دیکھیں ، اس کی تصویر کھینچ کر این سی او سی کو واٹس ایپ ضرور کریں تاکہ اس کے خلاف اقدامات اٹھائے جاسکیں۔ 

شکایت سے کیا ہوگا؟

غور طلب بات یہ ہے کہ ملک بھر کے کم و بیش 90 فیصد لوگ ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کرتے۔ ایسے میں عوامی شکایات پر حکومت کس کس شخص کے خلاف کارروائی کرے گی اور کیا واقعی اس کارروائی پر عوام کورونا ایس او پیز کو سنجیدہ لینا شروع کردیں گے؟

یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس اقدام کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گے یا نہیں، لیکن اگر عوام شکایت کرنا  اور حکومت اس پر ایکشن لینا شروع کرے تو صورتحال میں کسی نہ کسی حد تک تو ضرور بہتری لائی جاسکتی ہے۔ 

دُنیا بھر کی صورتحال 

شکایات کو بے سود سمجھنے سے قبل یہ بھی دیکھئے کہ دُنیا بھر میں کورونا وائرس نے اہم ترین ممالک کا کیا حال کیا۔ امریکا میں کورونا وائرس نے 2 لاکھ 35 ہزار 180 افراد کی جان لے لی۔ بھارت میں 1 لاکھ 21 ہزار 681 افراد ہلاک ہوئے جبکہ برازیل میں 1 لاکھ 59 ہزار 562 افراد انتقال کر گئے۔

روس میں ہلاکتوں کی تعداد 27 ہزار 990 تک جا پہنچی، فرانس میں 36 ہزار 565 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسپین میں 35 ہزار 878 افراد انتقال کر گئے۔ یہ سب کورونا وائرس کے باعث ہوا اور ہر گزرتے روز کے ساتھ وائرس کے مریضوں اور اموات میں اضافہ جاری ہے۔

خود احتسابی کی ضرورت 

حقائق کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں 3 لاکھ 32 ہزار 993 میں سے 2 اعشاریہ 04 فیصد لوگ کورونا وائرس کے باعث جاں بحق ہوئے جو بظاہر اتنی خطرناک صورتحال نظر نہیں آتی لیکن ملک بھر کے 6 ہزار 806 افراد کورونا کے باعث خالقِ حقیقی سے جاملے، کیا ان کی جانیں قیمتی نہیں تھیں؟

بے شک کسی ایک بھی انسان کی زندگی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام کے نزدیک ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔

اس لیے بہتر تو یہ ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کیلئے ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والوں کی شکایت ضرور کی جائے لیکن اس سے زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ خود احتسابی پر بھی توجہ دی جائے۔ اپنے آپ پر بھی توجہ دیجئے کہ آپ کورونا ایس او پیز پر کتنا عمل کرتے ہیں؟

اسلام نے ہمیں ایک انسان کی جان بچانے کی اہمیت بتائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ درس بھی دیا کہ خودکشی کتنا برا عمل ہوسکتا ہے۔ اگر معمولی سی کورونا وائرس ایس او پیز پر عمل سے آپ کی جان بچ سکتی ہے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے؟

قبل ازیں اگر آپ نے کبھی ایس او پیز پر عمل نہیں کیا تو وائرس کے خلاف جہاد کیلئے عمل شروع ضرور کیجئے تاکہ آپ خودکشی سے اور دوسرے لوگ آپ کی وجہ سے وائرس کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔ 

Related Posts