اسلام آباد میں کالا دھن جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لگانے کا انکشاف

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Corruption in housing societies has been revealed in Islamabad

اسلام آباد :شہر اقتدار کے زون فور میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ریجنل پلاننگ ارشد چوہان کی سرپرستی میں ہاوسنگ سوسائٹیز میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔

سوسائٹی انتظامیہ کی جانب سے مارکیٹ اور سوشل میڈیا پر تشہیری مہم میں ڈیلرز عوام الناس کو گھر بنانے کا خواب دکھا کر پلاٹس فروخت کر رہے ہیں جبکہ سی ڈی اے نے مکمل چپ سادھ لی ہے۔

سوسائٹی انتظامیہ کی جانب سے پلاٹوں کی خریدوفروخت سی ڈی اے اور نیب قوانین کے مطابق نہیں ،جب تک سوسائٹی انتظامیہ کو سی ڈی اے کی جانب سے این او سی جاری نہیں کیا جاتا اس وقت تک پلاٹس فروخت نہیں کیے جا سکتے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اسکیم نے این او سی حاصل کیے بغیر ہی پلاٹوں کی خرید و فروخت نہ صرف شروع کر دی ہے بلکہ سوسائٹی میں کئی گھروں کی تعمیر ہوچکی ہے۔

پارک ویوہاؤسنگ سوسائٹی اور بحریہ انکلیو سے ملحقہ اراضی پر اسلام آباد ماڈل ٹاؤن کا 423 کنال پر مشتمل ایل او پی سی ڈی اے کی جانب سے منظور کیا گیا جب کہ سی ڈی اے کی جانب سے پلاٹوں کی تشہیر کی اجازت نہیں دی گئی ۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ارشد چوہان کی ایماء پر سوسائٹی پلاٹوں کی فروخت میں مصروف ہے، سی ڈی اے کے بائی لاز کے مطابق سوسائٹی کی بنیادی سہولیات پانی بجلی سمیت دیگر سہولیات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں، مارکیٹ سے پیسہ اکٹھا کرنے کے لئے ارشد چوہان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سوسائٹی کی حمایت کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے ملک طاہر اور چوہدری نوید نے اسلام آباد ماڈل ٹاؤن کے لئے زمینوں کی خریداری کرتے ہوئے 423 کنال کا ایل او پی ارشد چوہان سے منظور کروایا اور این او سی کے بغیر ہی پلاٹس کی فروخت شروع کر دی ۔

ملک طاہر کے آر ایل میں معمولی ملازم تھے جبکہ چوہدری نوید بطور ٹیکس کنسلٹنٹ کام کرتے رہے ،دونوں نے مل کر اربوں روپے کی سرمایہ کس طرح کی اور پیسہ کہاں سے آیا یہ ایک بے نامی جائیداد تو نہیں ؟۔

تحقیقاتی اداروں سے کیسے بچتے رہے یہ تمام سوالات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ چند سالوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے علاوہ دونوں افرادملتان سمیت دیگر شہروں میں بھی بے نامی جائیداد اور اثاثوں کے مالک ہیں ۔

اس حوالے سے قابل ذکر امریہ ہے کہ ان دونوں پارٹنرز انتہائی باریکی سے کیسے آمدن کو قانون کی نظر سے بچاتے ہوئے متعلقہ اداروں میں میل ملاپ کے ذریعے ٹیکس چوری کرتے رہے اور دستاویزات میں ظاہر ہونے سے محفوظ رہے ۔

کنسلٹنٹ نوید نے اپنے آپ کو وکیل ظاہر کیا اور تشہیری مہم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے میں این او سی کے منظور نہ ہونے کے باوجود پلاٹوں کی خرید و فروخت کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:وزارت بین الصوبائی رابطہ کے افسران نے کھیلوں کے نام پر لاکھوں روپے بٹور لئے

ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر اربوں روپے کے کالے دھن کو تحقیقاتی اداروں کی نظر سے بچانے کے لئے ٹیکس کنسلٹنٹ نے ایمنسٹی اسکیم کا سہارا بھی لیا لیکن وہ شاید اس بات کو بھول گئے کہ نئے قوانین کے مطابق اثاثہ جات کی منی ٹریل بتانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

Related Posts