فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مئی 2025 کے دوران 206 ارب روپے کی ٹیکس کمی کا شکار ہوا ہے، جس کے بعد رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ (جولائی تا مئی) میں مجموعی شارٹ فال 1,027 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی معاشی پالیسیوں، ٹیکس نظام، اور حکومتی اہداف کی حقیقت پر کئی سوالات کھڑے کرتی ہے۔
مئی میں ایف بی آر کو 1,110 ارب روپے کا ہدف دیا گیا، مگر صرف 904 ارب روپے ہی جمع ہو سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو اہداف زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے یا پھر ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور عملدرآمد میں سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔
اگر جون 2025 میں مقررہ 2,121 ارب روپے کا ہدف حاصل نہ ہو سکا، تو نہ صرف بجٹ خسارہ بڑھے گا بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کمی سے کرنسی دباؤ میں آ سکتی ہے، مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اور مالیاتی پالیسی میں غیر یقینی بڑھ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق چند اہم عوامل ایف بی آر کی ناکامی میں کردار ادا کر رہے ہیں جس میں ایک پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہونا ہے، جس سے ریونیو کا بڑا پوٹینشل ضائع ہو رہا ہے۔
ریونیو اتھارٹیز کے پاس مکمل ڈیجیٹل نظام نہ ہونے کے سبب ٹیکس چوری آسان ہو گئی ہے جبکہ کچھ بااثر طبقات کو حاصل چھوٹ اور مراعات ٹیکس نیٹ کو متاثر کر رہے ہیں۔
حکومت نے ایف بی آر کا سالانہ ہدف 12,913 ارب روپے سے گھٹا کر 12,334 ارب کر دیا ہے، جو درحقیقت ناکامی کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم یہ کوئی دیرپا حل نہیں بلکہ وقتی ریلیف ہے۔
پاکستان کی مالی خودمختاری تبھی ممکن ہے جب ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں شفافیت لائی جائے اور ڈیجیٹلائزیشن پر فوری عملدرآمد کیا جائے
ایف بی آر کا حالیہ کارکردگی گراف معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر ٹیکس وصولیوں میں بہتری نہ لائی گئی تو نہ صرف مالیاتی بحران گہرا ہوگا بلکہ مستقبل میں ترقیاتی منصوبے، سبسڈی پروگرام، اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوششیں بھی متاثر ہوں گی۔