50ہزار روپے کی خریداری پرشناختی کارڈ کی شرط لاگو

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

FBR CNIC
FBR CNIC

ٹیکس دینا ہر شہری کی ایک بنیادی ذمہ داری ہے ،حکومت کو نظام ریاست چلانے کے لیے ٹیکس پر ہی انحصار کرناپڑتاہے۔ صحت اور تعلیم ،سڑکیں اور سفری سہولیات یہ سب کچھ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی پوراکرسکتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک ٹیکس وصول کئے بغیر قائم نہیں رہ سکتا ، پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ترقی پذیر اور امیر ترین ممالک میں ٹیکس کا نظام رائج ہے۔

اقوام متحدہ کی رائے
پاکستان میں ٹیکس چوری ایک فیشن بن چکا ہے، عالمی ادارے پاکستان میں ٹیکس چوری پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں ، اقوام متحدہ نے پاکستان میں ٹیکس چوری کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے معیشت کیلئے زہر قاتل قراردیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام مساوی نہیں ہے،با اثر طبقات ٹیکسوں کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ پاکستان کو اپنی آمدن بڑھانے کیلئے ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانا ہوگا۔

ایف بی آر کے اقدامات
موجودہ حکومت اپنے قیام سے اب تک ملک میں معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔وزیراعظم عمران خان نے ٹیکس اصلاحات کا عزم لیکر شبر زیدی کو پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکس کے ادارے ایف بی آر کا چیئرمین لگایا جنہوں نے ٹیکس چوری روکنے کیلئے 50 ہزار روپے کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط عائد کی جس کے بعد خریدار سراسیمہ، دکاندار پریشان، تھوک بازاروں اور مارکیٹوں میں سناٹے چھاگئے اور سیلز خطرناک حد تک گر گئی۔

تاجروں کا ردعمل
گزشتہ سال 50 ہزار یا زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ جمع کرانے کی شرط کے خلاف ملک بھر میں تاجروں کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کردی گئی تھی جس سے معیشت کو تقریباً 20 سے 25 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، تاجروں کی ہڑتال کے پیش نظر حکومت نے شناختی کارڈ کی شرط کو فوری نافذ کرنے کا فیصلہ واپس لیکر یکم فروری تک موخرکردیا تھا جبکہ تاجروں کا کہنا ہے کہ مسئلے کا حل شناختی کارڈ کی شرط کو مکمل ختم کرنا ہی ہے ۔

اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کا متضاد موقف
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ 50 ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط تاجروں کوکے بارے میں مزید سمجھانے کی ضرورت ہے۔مرکزی بینک کاکہنا ہے کہ شناختی کارڈ کی شرط غیر اندارج شدہ خریدار اورگھریلو صارفین کیلئے نہیں ہےجبکہ کاروبارکی غرض سے 50 ہزار سے زائد کی خریداری پر صرف شناختی کارڈ نمبر نوٹ کرانا ہے، شناختی کارڈ کی کاپی رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

ایف بی آر کاکہنا ہے کہ 50ہزار یا اس سے زائد کی خریداری پر ہرصارف کو شناختی کارڈ کی کاپی دینا ہوگی۔ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اس شرط کا مقصد کاروباری لین دین کا ریکارڈ مرتب کرنااور سیلز ٹیکس کا مربوط نظام قائم کرنا ہے ۔ایف بی آر کو امید ہے کہ اس سے ٹیکس سسٹم میں نئے افراد شامل ہونگے۔

نیا قانون اور حکومتی عزم
یکم فروری 2020ء سے ملک بھر میں 50 ہزار روپے کی خریداری کیلئے شناختی کارڈ کی نقل جمع کرانے کی شرط لاگو ہوگئی ہے،50 ہزار یا زائد کی خریداری پر صارفین کو شناختی کارڈ کی نقل دکاندار کو فراہم کرنا ہوگی۔تاہم خواتین کیلئے شناختی کارڈ دکھانا لازمی نہیں ہوگا ، خواتین والد، شوہر یا بیٹے کے شناختی کارڈ کی نقل دیکربھی خریداری کرسکتی ہیں۔شناختی کارڈ کی نادرا سے تصدیق کی جائے گی۔حکام کا کہنا ہے کہ معیشت کی ڈاکومنٹیشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، یکم فروری سے تاجروں کو شناختی کارڈ کی شرط پر عمل کرنا ہوگا،ٹیکس فری ماحول کے عادی لوگ شناختی کارڈ کی شرط کی مخالفت کررہے ہیں تاہم معیشت کو دستاویزی بنانے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔پاکستان کے اکثر لوگ ٹیکس کے دائرہ میں آنے کو تیار نہیں لیکن مفت تعلیمی، مفت صحت، اور تمام سہولیات وہ مانگتے ہیں جو یورپ میں بسنے والے لوگوں کو میسر ہیں،۔

مسئلے کا حل
ٹیکس ریفارمز کا مقصد پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام پر مزید بوجھ ڈالنا نہیں بلکہ اصلاحات کا مقصد ٹیکس دہندگان کو بروقت ادائیگی کا پابند کرنے کے لیے سخت و مؤثر پالیسی اور عملی اقدامات کرنا چاہئیں اورقوم کوٹیکس ادائیگی کو قومی فریضہ سمجھنا پڑے گااورحکومت کو ٹیکس نظام میں بہتری کے لئے عوام کے اعتماد میں اضافہ کرنا پڑے گا جس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکس کے نظام کو آسان اور شفاف بنائے۔

Related Posts