شہر اقتدار میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجوہات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شہر اقتدار میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجوہات
شہر اقتدار میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجوہات

شہر اقتدار میں بڑھتے ہوئے جرائم کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام آباد کو سیف سٹی کا نام دیا گیا تھا اور اس شہر کو جرائم سے محفوظ بنانے کے لیے برادر ملک چائنا نے 2500 سی سی ٹی وی کیمرے بھی تحفے میں دیئے‘ ان تمام کیمروں کو پورے شہر میں نصب کردیا گیا‘ جبکہ وفاقی پولیس کو مزید سہولیات 500ڈبل کیبن گاڑیاں بھی دی گئیں تھیں جو چائنہ نے پاکستان کو پولیس فورس کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے دی تھی مگر ان تمام سہولیات کے باوجود بھی جرائم پر قابو نہیں پایا گیا۔

ان کیمروں میں سے تقریباً 1500سو سے زائد کیمرے خراب ہو چکے ہیں‘جن کو ابھی تک مرمت نہیں کرایا گیا جبکہ پولیس کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا‘جبکہ دیگر اضلاع کی پولیس کے مقابلے میں وفاقی پولیس فورس کو زیادہ مراعات دی گئی ہیں اور وفاقی پولیس کے افسروں کا رہن سہن بھی شاہانہ ہے۔

پولیس افسران کی کینالوں اوراراضی پر محیط کوٹھیاں ہیں جن میں وفاقی پولیس آفسیرز رہائش پذیر ہیں جو ان کی ذاتی ملکیت ہیں‘ وفاقی پولیس جرائم کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے‘ کانسٹیبلسے لیکر بڑے صاحب تک اپنے درجے کے مطابق رشوت لیتے ہیں اور مختلف جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کے ساتھ مبینہ طورپر منسلک ہیں جیساکہ منشیات فروش‘اغواء برائے تاوان‘ٹمبر مافیا‘لینڈ مافیا‘قبضہ گروپوں سے بھتہ وصول کرنا کمزور شہریوں کی زمینوں پر مافیا کیساتھ ملکر ناجائز قبضے کر اکر اپنا حصہ وصول کرنا۔

گزشتہ دنوں ہونے والے دلخراش واقعے جس میں دو قتل کے الزام میں ملزمان گرفتار تھے‘ پنجاب پولیس نے مدعی کوپولیس کے حوالے کیا اور یہ دونوں ملزمان بھی اسلام اباد پولیس کے ملازم تھے‘پولیس نے ملزمان کومری کورٹ سے فرار کا ڈرامہ رچایا‘ اسلام آباد کے بڑے پولیس افسران نے پنجاب پولیس اور مدعی مقدمہ سے منہ مانگے دام مبینہ طور پر وصول کر کے ملزمان کو ان کے حوالے کر دیا جس کے نتیجے میں ملزمان کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور پنجاب پولیس نے اسے پولیس مقابلہ بنا دیا۔

اسی طرح وفاقی پولیس کی حدود میں آکر کارروائی کرنا خلاف قانون ہے اور آسان نہیں وفاقی پولیس کے 90فیصد افسران انہی دھندوں میں ملوث ہیں اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں‘ اپنے حصے کے علاوہ ان جرائم پیشہ افراد سے منتھلیاں وصول کرتے ہیں‘ وفاقی پولیس کے تھانوں کی باقاعدہ بولی لگائی جاتی ہے‘جو ایس ایچ او زیادہ بولی لگاتا ہے تھانہ اسی ایس ایچ او کو دے دیا جاتا ہے‘اس وقت وفاقی پولیس کے تھانوں میں نااہل کرپٹ ترین سب انسپکٹرز تعینات ہیں‘ جو اے ایس پی۔ ڈی ایس پی۔ایس پی۔ایس ایس پی سے لیکر اوپر تک روزانہ کی بنیاد پر بھتہ پہنچاتے ہیں۔

ایس ایچ او صاحبان کو اپنے کام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے‘شہر میں جرائم پیشہ افراد کا راج ہے جو تھانوں میں آکر ان افسروں کو کام نہ ہونے کی صورت میں گالی گلوچ تک کرتے ہیں‘ان افسروں کو پتہ ہے کہ کونسا جرم کرنے والا ملزم کہاں رہائش پذیر ہے لیکن ان جرائم پیشہ افراد کو گرفتار نہیں کیا جاتا‘کیوں کہ جرائم پیشہ افراد ان افسران کو ماہانہ اور روزانہ بھتہ دیتے ہیں‘عام غریب شہریوں کو انصاف سے محروم کر دیا جاتا ہے اور امیر جرائم پیشہ افراد کو تھانوں میں خصوصی پروٹوکول دیا جاتاہے۔

وفاقی پولیس مراعات اور الاؤنسز کی مد میں بڑی سہولتوں سے فائدے اٹھا رہے ہیں لیکن جرائم پر قابو جان بوجھ کر نہیں پایا جارہا‘اگر وفاق میں لاء اینڈ آرڈر کی یہ صورتحال ہے تو پھر باقی ملک کا اللہ حافظ ہے‘ پولیس نے ملزموں اور مجرموں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے‘ جرائم کی اصل وجہ خو وفاقی پولیس ہے جو پیسوں کے عوض عوام کا سکھ چین غیر محفوظ بنا چکے ہیں‘ اب بہت مشکل ہے کہ وفاقی پولیس ان جرائم پیشہ پر قابو پا سکے۔

اگر جرائم پر قابو پانا ہے اورجرائم کو کنٹرول کرنا ہے تو وفاقی پولیس میں سے ان کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنا ہوگا‘پھر ممکن ہوسکے گا کہ شہر اقتدار کے جرائم پر قابو پایا جاسکے۔ یہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وفاقی پولیس جرائم پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہے۔

Related Posts