پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک، کیا مریم نواز اگلی وزیرِ اعظم بن سکتی ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Maryam Nawaz

کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ عمران خان کرکٹ کے میدان سے اٹھ کر ملک کا وزیرِ اعظم بن جائے گا؟ کیا تحریکِ انصاف سندھ کے صدر ڈاکٹر عارف علوی جو پہلے محض رکنِ قومی اسمبلی تھے، کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ پاکستان کے صدر بن جائیں گے؟

دُنیا چاند سے گزر کر مریخ پر پہنچی اور اب نت نئی کہکشاؤں کی کھوج جاری ہے۔ یہ کوئی پتھر کا عہد نہیں جس میں ہم جی رہے ہیں بلکہ یہ اکیسویں صدی ہے جہاں عالمِ انسانیت کے ایسے ایسے خیالات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں جنہیں پہلے کسی خواب و خیال سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔

ایسے میں اگر موجودہ پی ڈی ایم رہنماؤں میں سے ایک اُبھرتی ہوئی آواز، سابق وزیرِ اعظم کی بیٹی اور ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز ملک کی نئی وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھے تو اِس خواب کو تعبیر مل جانا کوئی اچنبھے کی بات محسوس نہیں ہوتی۔

آئیے آج مریم نواز کی ذاتی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مریم نواز کو ملک کی نئی وزیرِ اعظم بنانا ممکن ہوگا یا نہیں۔

مریم نواز کی ابتدائی زندگی

شریف خاندان 90ء کی دہائی میں ملکی سیاست میں بے حد فعال رہا جب نواز شریف ملک کے وزیرِ اعظم اور شہباز شریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب جیسے اعلیٰ ترین قومی مناصب پر فائز رہے۔

آج ملکی سیاست میں بے حد متحرک نام مریم نواز 28 اکتوبر 1973ء کو داتا کی نگری لاہور میں پیدا ہوئیں۔لاہور سے ابتدائی تعلیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ڈگری حاصل کی اور 2012ء میں رفاعی کاموں میں مشغول ہو گئیں۔

سیاست میں شمولیت  اور خاندانی پس منظر

عام انتخابات 2013ء کے دوران مریم نواز لاہور کی انتخابی مہم کی منتظم رہیں اور اسی سال 22 نومبر کو وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن بنیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں مریم نواز کی تقرری چیلنج کردی گئی جس کے بعد انہوں نے اگلے ہی برس 13 نومبر کو استعفیٰ دے دیا۔

پس منظر میں جائیں تو خاندانی اعتبار سے مریم نواز اہم سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ کلثوم نواز خاتونِ اول اور نواز شریف 3 بار وزیرِ اعظم رہے۔ مریم نواز کی ایک بہن عاصمہ نواز بھی ہیں جبکہ حسین نواز اور حسن نواز ان کے دو بھائی ہیں۔

اتفاق گروپ کے بانی مریم نواز کے دادا محمد شریف ایک صنعتکار تھے جبکہ پرنانا پہلوان ہوا کرتے تھے۔ خاندانی طور پر ان کا تعلق بھارتی شہر امرتسر سے جا ملتا ہے۔

شہباز شریف اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی ہیں جو رشتے کے اعتبار سے مریم نواز کے چچا ہیں ، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز چچا زاد بھائی ہیں۔

شادی اور بچے 

جب مریم نواز کی عمر 19 برس تھی، انہوں نے 1992ء میں صفدر اعوان سے شادی کی اور مریم صفدر کہلانے لگیں۔ صفدر اعوان پاک فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے۔ 

بعد ازاں مریم نواز کے تین بچے پیدا ہوئے۔ جنید صفدر، ماہ نور اور مہر النساء ن لیگ کی موجودہ نائب صدر مریم نواز کے بچوں کے نام ہیں۔ 

پاناما پیپرز کیس

سن 2016ء میں پاناما پیپرز منظرِ عام پر آئے جن میں مریم نواز کے ساتھ ساتھ ان کے بھائیوں حسین نواز اور حسن نواز کے نام بھی موجود تھے۔ بتایا گیا کہ مریم نواز برطانوی ورجن آئی لینڈز کی کمپنیوں نیلسن انٹر پرائزز اور نیسکول لمیٹیڈ کی مالک اور اپنے بھائیوں کے ہمراہ برطانیہ میں جائیدادوں کی مالک ہیں۔

یہ وہ اثاثے تھے جو مبینہ طور پر عوام سے چھپائے گئے۔ مریم نواز نے برملا ان تمام الزامات سے انکار کیا اور کہا کہ پاکستان سے باہر میری کوئی کمپنی یا جائیداد نہیں ہے۔ میرے بھائی حسین نواز نے صرف مجھے اپنی کمپنیوں میں ٹرسٹی بنایا تھا۔

ستمبر 2016ء میں پی ٹی آئی نےسپریم کورٹ میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ پر پانامہ پیپر اسکینڈل میں ملوث ہونے کا کیس دائر کردیا۔ جنوری 2017ء میں مریم نواز نے اپنا بیان جمع کرا دیا جس کے مطابق 1992ء سے وہ اپنے والد کی ذمہ داری نہیں رہی تھیں۔

بعد ازاں فروری 2017ء میں مریم نواز کے وکیل نے یہ بات تسلیم کی کہ 2006ء کے کم از کم 6 ماہ کے دوران مریم نواز لندن میں 4 فلیٹس کی مالک رہی ہیں۔ 20 اپریل  کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

اسی برس 10 جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ شریف خاندان کے اثاثہ جات آمدن سے زائد رہے ہیں جس سے ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم ثابت ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ 

کیلبری فونٹ کا معاملہ 

جے آئی ٹی رپورٹ جو 10 جولائی کو سامنے آئی، اس میں بتایا گیا کہ مریم نواز نے سپریم کورٹ کو غلط بیانی کرکے گمراہ کیا کیونکہ ان کے دستاویزات جعلی تھے جن کا ثبوت ان میں استعمال کیا گیا کیلبری فونٹ ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ فونٹ کمرشل بنیادوں پر 31 جنوری 2007ء سے قبل استعمال کیلئے دستیاب نہیں تھا جبکہ دستاویزات میں پرانے گھپلوں کو نئے فونٹ کی تحریر سے چھپانے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی۔

عدالتِ عظمیٰ نے 28 جولائی 2017ء کو مریم نواز کو کوئی  بھی سرکاری عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے نیب کو بھی حکم دیا کہ نواز شریف اور اہلِ خانہ کے خلاف بدعنوانی کے الزام پر تحقیقات شروع کی جائیں۔

ذاتی کردار اور بیانات 

اگر ذاتی کردار کی بات کی جائے تو کیسز اور نااہلی کے بعد مریم نواز پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ کہیں جانے کیلئے ٹول ٹیکس ادا کیے بغیر نکل جاتی ہیں۔ رواں ماہ گجرانوالہ جلسے میں شرکت کیلئے موٹر وے سے جاتے ہوئے مریم نواز نے ٹول ٹیکس ادا نہیں کیا۔

قافلے میں شریک دیگر گاڑیوں نے بھی مریم نواز کی تقلید کرتے ہوئے ٹول ٹیکس کی ادائیگی سے ہاتھ روک لیا اور کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیاں الگ کی گئیں۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پاک فوج کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ مریم نواز ان کی کھل کر حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔ 6 روز قبل مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کے بیانیے کو ریاست کے خلاف قرار دینا مضحکہ خیز ہے۔

رواں ماہ کے دوران 8 اکتوبر کو مریم نواز نے کہا کہ میں کارکنان کو اکیلے نہ چھوڑنے کا یقین دلاتی ہوں، میں قربانی کے وقت چھپنے کی بجائے پہلی صف میں کھڑی رہوں گی۔

موجودہ پی ڈی ایم تحریک کے بارے میں مریم نواز نے کارکنان سے وعدہ لیا کہ وہ حکومت مخالف تحریک کا حصہ بنیں گے کیونکہ عوام اس تحریک سے بہت سی امیدیں رکھتے ہیں۔ ہم آئین اور قانون کا سر نہیں جھکنے دیں گے۔ 

متوقع وزیرِ اعظم یا نہیں؟

بلاشبہ ملکی سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں سمجھی جاتی، جمہوریت کا مطلب ہی اپنے بیان کو وقت اور حالات کے اعتبار سے ڈھال کر پیش کرنا ہے کیونکہ آپ کو وہ کہنا ہوتا ہے جو عوام آپ سے چاہتے ہیں۔

ایسے میں مریم نواز ملک کی اگلی وزیرِ اعظم بنیں گی یا نہیں، اس حوالے سے کوئی واضح پیشگوئی تو نہیں کی جاسکتی لیکن موجودہ حکومت مخالف تحریک، پی ڈی ایم جلسوں اور متوقع دھرنوں کے بعد ہی صورتحال مزید کھل کر سامنے آسکتی ہے۔ 

 

Related Posts