پاکستان نے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے معاملے پر برطانیہ کی خدمات حاصل کر تے ہوئے پائلٹس کے امتحانات کو آؤٹ سورس کر دیاہے۔ پاکستان سول ایوی ایشن اور برطانوی سول ایوی ایشن کے درمیان معاہدہ طے پا گیاہے جبکہ وفاقی کابینہ نے فریم ورک ایگری منٹ کی منظوری دے دی ہے۔
معاہدے کے مطابق پہلے سال فی پیپر امتحانی فیس 90 پاؤنڈ، دوسرے سال 95 پاؤنڈ مقرر کی گئی ہے۔ پہلی بار 75 اور دوسری بار امتحان میں 25 فیصد ادائیگی کی جائے گی۔ تیسری بار امتحان میں پائلٹ فیس کی مکمل ادائیگی خود کرے گا۔
پائلٹس کے جعلی لائسنس کا معاملہ 22مئی 2020ء کو کراچی میں قومی ائیر لائن کا ایک طیارہ گرنے کے بعد سامنے آیا جس میں 97 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور طیارہ حادثے کے بعد وزارتِ ہوابازی غلام سرور نے اعلان کیا کہ پائلٹس ہی حادثات کے ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ متعدد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں تاہم بعد میں صورتحال اِس کے برعکس نکلی۔
2 جولائی کوپی آئی اے نے نااہل افسران کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوگیا جبکہ قومی ائیر لائن کے طیاروں کی بیرونِ ملک پروازوں پر پابندی عائد تھی جس کے دوران نااہل افسران کا پتہ چلایا گیا اور انہیں عہدوں سے فارغ کرنے کیلئے کارروائی شروع کی گئی۔
پی آئی اے نے اپنے 426 میں سے 150 پائلٹس کے لائسنس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی کہ مشکوک تعلیمی اسناد رکھنے والے پائلٹس رشوت دے کر پاکستان کی قومی ائیر لائن میں بھرتی ہوئے۔
امریکا اوریورپی یونین کی ایئر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کے انکشاف ہونے کے بعد ایئر لائن پر پابندی عائد کردی ،متحدہ عرب امارات نے پائلٹوں کے لائسنس کی تصدیق پر دباؤ دیا۔
اٹلی، آسٹریا، کروشیا، بلغاریہ، پرتگال، پولینڈ، رومانیہ، فن لینڈ، جرمنی، فرانس، اسپین، یونان اور سویڈن سمیت 27 ممالک نے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن روک دیاجبکہ ملائیشیا نے بھی جعلی لائسنس کا معاملہ سامنے آنے کے بعد 20پاکستانی پائلٹوں کو معطل کر دیا۔
ملک میں کارروائی کا سلسلہ آگے بڑھا تو ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل نے کپتانوں کے جعلی لائسنس کے معاملے پر سول ایوی ایشن لائسنس برانچ کے 5 افسران اورایک پائلٹ کو حراست میں لے لیا ۔
262پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دیئے گئے جن میں سے 28 کے جعلی ہونے کی تصدیق ہوگئی دوسری جانب مشکوک لائسنس والوں میں 141 پائلٹس کا تعلق پی آئی اے ،9پائلٹس ایئر بلیو،10سرین ایئرلائن اور 17شاہین ایئر لائن کے پائلٹس کے لائسنس مشکوک پائے گئے۔9 پائلٹوں نے جعلی ڈگری کا اعتراف کرلیا۔
بعد ازاں متعدد پائلٹس کو کلین چٹ دے دی گئی۔سول ایوی ایشن نے یہاں تک کہا کہ تمام پائلٹس کے لائسنس اصلی ہیں یعنی قبل ازیں لائسنس جعلی ہونے کی تمام تر خبریں غلط قرار دے دی گئیں۔
پاکستان نے پی آئی اے کے کراچی میں ہونیوالے المناک حادثے میں جہاں سو کے قریب زندگیاں ضائع ہوئیں وہیں پاکستان کو پوری دنیا میں پائلٹس کے معاملے میں شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور فلائٹ آپریشنز پر پابندی کی وجہ سے کھربوں روپے کا مالی نقصان بھی بردا شت کرنا پڑا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے معاملے پر امتحانات کو آؤٹ سورس کر نے کا فیصلہ قابل تحسین ہے اور حکومت کو چاہیے کہ ہوابازوں کی تعلیم و تربیت پر حصول توجہ دے تاکہ قیمتی جانوں کا ضیاع ،عالمی سطح پر شرمندگی اور مالی نقصان کوروکا جاسکے۔