پاکستان چلانے والی قوتوں کیلئے مقامِ فکر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 اس ملک کے سیاستدان ہمیشہ صرف اپنی سیاسی پارٹیوں کے بارے میں سوچتے ہیں ، کاش کہ یہ اپنی پارٹی سے محبت سے پہلے ملک اور عوام سے محبت کرتے!۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 70 سالوں میں عوام نے صرف روٹی، کپڑااور مکان کا نعرہ سناجسے ہر پارٹی نے اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا اور آج عالم یہ ہے کہ لوگوں کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

عوام اب مایوس اور ہر سیاستدان سے ناامید ہوچکے ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر آگے آنے والے دنوں میں پاکستان اور پاکستانیوں کا مستقبل کہاں جائیگا۔50 سال پہلے متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور بھارت میں معیشت تباہ حال تھی، کوئی شخص خوشحال نہیں تھا لیکن اگر آج دیکھا جائے تو انہی ممالک میں معیشت کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔

متحدہ عرب امارات کی بات کی جائے تو یہ وہ صحرا تھا جہاں نہ موسم ، نہ حالات خوشگوار تھے لیکن اگر آج دیکھا جائے تو متحدہ عرب امارات ایک جدید ترین ملک بن چکا ہے جہاں دنیا بھر کی سرمایہ کاری نظر آتی ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ دبئی، امریکا ،یورپ اور ان جیسے کئی ممالک اور خطوں کی خوشحالی و ترقی کی وجوہات کیا ہیں؟

تحقیق کریں توپتا چلتا ہے کہ ان تمام ممالک نے سب سے پہلے انسانوں پر سرمایہ کاری شروع کی، ان کے حالات زندگی کو بہتر بنایا اورجو ملک ترقی نہیں کررہے ان لوگوں نے انسانوں پر کم جبکہ مشینوں  اور سڑکوں کو زیادہ ترجیح دی جس کی وجہ سے وہ اپنے تمام وسائل انہی پر خرچ کرتے رہے اور ان کے عوام غریب سے غریب ترہوتے گئے۔

جس ملک میں عوام کا سوچا جاتا ہے تو عوام خود کارخانے اور سڑکیں بنانے کیلئے حکومت کا ساتھ دیتے ہیں اور ٹیکس کی صورت میں ان ممالک کو مضبوط بنایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کبھی بھی عوام ٹیکس خود سے نہیں دیتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے ٹیکس کی رقوم کو کبھی بھی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ نہیں کیا جائے گابلکہ سیاسی مقاصد یا بیرونی قوتوں کو خوش کرنے کیلئے ٹیکس کا پیسہ اور عوام کے خون پسینے کی کمائی کو ضائع کردیا جائے گا۔

پچھلے 10 سال سے پاکستان میں سیاسی لوگوںنے چین کو خوش کرنے کیلئے بے انتہا سرمایہ کاری کی جوکہ پاکستان کے خزانے پر بھاری گزری اور اس بھاری پن کو کم کرنے کیلئے دنیا بھر سے قرض لینا پڑا۔نوازشریف اور عمران خان کی انہی غلطیوں کی وجہ سے آج ملک بھر میں عوام مہنگائی، پریشانی اور غربت کا شکار ہے۔

اگر نوازشریف اور عمران خان چین کے منصوبوں کو اپنے ذخائر کے منصوبے کے تحت لے کر چلتے تو شائد یہ منصوبے خزانے پر گراں نہ گزرتے بلکہ یہ منصوبے ملکی ترقی کا اہم حصہ بنتے لیکن افسوس کہ ہم نے ہمیشہ جذبات اور خوف کی فضا میں اپنے ملک کو چلایا ہے ۔کبھی امریکا کا خوف، کبھی سعودیہ کا خوف، کبھی چین کا خوف ۔اس خوف کی وجہ سے ہم ہمیشہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔

آ ج بھی ہم اسی خوف کی وجہ سے آئی ایم ایف کے شکار ہوچکے ہیں اور آئی ایم ایف ہمیں مزید خوفزدہ کررہا ہے کہ اگر ان کی بات نہ سنی گئی تو اس ملک کو بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔بات صرف اس سوچ کی ہے کہ 6 ارب ڈالر کا قرضہ دینے والے اپنی شرائط سے ہمارے خزانے کو سب سے بڑی چوٹ پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوپائینگے اور ممکن ہے کہ ہم مزید تباہیوں میں گھر جائیں۔

موجودہ حکومت کا عالم یہ ہے کہ بیرون ممالک سے بھاری شرح سود پر قرض لے کر گندم منگواتے ہیں اور اسے پھر افغانستان کو خیرات کردیتے ہیں۔

سعودی عرب جیسے ممالک جو انسانی حقوق اور مذہب کے نمائندے مانے جاتے ہیں وہ بھی جب پاکستان کی مدد کرتے ہیں تو مفت میں کبھی پاکستان کو کچھ نہیں دیتے بلکہ شرح سود لگاکر رقوم یا تیل کی ادائیگی کی جاتی ہے اور اس پر احسان الگ جتایا جاتا ہے۔

کاش کہ ہم نے ان سے کچھ سیکھا ہوتاتو شاید جو گندم ہم مفت میں افغانستان کو دے رہے ہیں، اسے قرض حسنہ کے طور پر دیتے یا وہ شرح سود لگاتے جس پر قرض لیا ہوا ہے مگر ایسانہیں ہوا ۔ ہمیں چین کے کہنے پر اپنے تعلقات ان تمام ممالک سے بہتر کرنے کی ضرورت ہے جس سے سی پیک منصوبہ کارآمد ہو۔

یہ اچھی بات ہے کہ ہم دنیا سے تعلقات بہتر بنائیں لیکن کس بنیاد پر؟ پاکستان کے اثاثوں کو قرض پر رکھ کر، خیرات مانگ کر، اپنے عوام کو بھوکا رکھ کر یا دن بدن عوام یا ملک کیلئے مشکلات پیدا کرکے تعلقات بہتر بنائے جائیں؟ جس دن ہمارے سیاستدان اپنے ملک سے محبت کرنا سیکھیں گے تب ہی وہ اپنے عوام سے محبت کرنا شروع کرینگے اور ان کیلئے آسائشیں اور آرام تلاش کرینگے لیکن یہ سیاستدان اپنے بڑے بڑے عہدوں پر ان لوگوں کو بٹھاتے ہیں جو بیرونی طاقتوں کے ساتھ آتے ہیں اور ہمارے ملک کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔

آج آپ اس بات کا اندازہ ہمارے پچھلے 20سال کے اسٹیٹ بینک کے گورنرز اور وزرائے خزانہ کے ناموں سے لگاسکتے ہیں جو کہ نمائشی طور پر تو پاکستانی ہیں لیکن ان کی تعلیم سے لیکر تمام زندگیاں بڑی قوتوں کے ہاتھوں میں گزری ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ الفاظ اور اعداد کے جوڑ توڑ اور اپنی تعلیم کو استعمال کرکے کس طرح عوام اور اپنے ملک کو گمراہ کیا جاسکتا ہے۔

اب سوچنے کا وقت آگیا ہے،کیا پاکستان کی جو طاقتیں ہیں ان حکمرانوں کو اسی طرح ملک چلانے دینگے یا کوئی محب الوطن قوت پاکستان کے مستقبل کیلئے کام کریگی۔

Related Posts