کراچی: پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئل فورم کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کی جامعات اور صنعتی شعبہ کے درمیان ابھی تک اتنا مؤثر رابطہ نہیں ہو سکا ہے جتنا دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان بہت پہلے ہو چکا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکی اور یورپی ممالک کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں چار سے پانچ کھرب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے دنیا بھر میں چار ہزار ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جا چکا ہے جب کہ وہ سی پیک کے منصوبوں کے تحت پاکستان میں تقریبا 65 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرے گا ۔
اس صورتحال میں ہماری جامعات کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ ایسے نوجوان تیار کر رہی ہے جو کہ کمپیوٹنگ، انجینئرنگ، سپلائی چین اور پروجیکٹ مینجمنٹ کے شعبوں میں کام کرکے عالمی سطح پر ہونے والی اتنی بڑی سرمایہ کاری کی بنا پر شروع ہونے والے منصوبوں میں کام کرکے اپنے لئے فوائد حاصل کرسکیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کی بزنس ایڈمنسٹریشن فیکلٹی کے پروگرام کارپیٹ لاؤنج کے میزبان ڈاکٹر شجاعت مبارک کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انڈسٹری اور جامعۃ دونوں کے درمیان خدشات موجود ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے، ہر یونیورسٹی کا اپنا ایک اسٹینڈرڈ ہے، کچھ کا اچھا ہے اور کچھ کا برا ہے جبکہ عالمی سطح پر اچھی جامعات کی درجہ بندی کی فہرست میں پاکستان کی یونیورسٹیوں کا نام 150 کے بعد شروع ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جامعات ایگزیکٹیوز یا پروفیشنلز نوجوان تیار کرنے کی بجائے معاشرے کو کلرکس فراہم کر رہی ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی آبادی کا 65 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لیے قومی ترقی و خوشحالی کیلئے ان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہماری جامعات کو چاہیے کہ وہ حکومت اور انڈسٹری کے تعاون سے نوجوانوں کو ایسی تعلیم و تربیت فراہم کریں جس کی بنا پر وہ ملکی اور عالمی ترقیاتی منصوبوں میں کام کرکے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر سکیں ۔
انہوں نے کہا کہا کہ حکومت کو گذشتہ دو ماہ کے دوران برآمدات اور ترسیل زر کی شرح میں اضافے کی بنا پر کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہونا چاہیے اور اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری رہ سکے گا ،جو کہ اپنی جگہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
میاں زاہد حسین نے نے کہا کہ حکومت ایک طرف تو درآمدات کو کم کرنا چاہتی ہے لیکن خام مال کی درآمدات میں کمی نہیں کی جا رہی ہے جب کہ کچھ اشیاء کی درآمد پر پہلے ٹیکس لگایا پھر واپس لے لیا گیا۔ انہوں نے نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم ہورہی ہے جس کا ہہم کو فائدہ ہوا ہے اور اسی لیے پاکستان کے امپورٹ بل میں کمی واقع ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں:حکومت سیالکوٹ کی برق رفتار ترقی میں نجی شعبے کی مدد کرے، اشرف ملک