حالیہ دنوں میں سویڈن اور ناروے میں قرآنِ پاک کو جلایا گیا اور فرانسیسی میگزین میں حضورِ اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کیے گئے جس سے ہر مسلمان کے جذبات مجروح ہوئے۔
نبئ اکرم ﷺ کی گستاخی اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی ایسے جرائم ہیں جن کی شریعتِ اسلامی میں سزا موت ہے لیکن سویڈن، ناروے اور فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک میں اسلام دشمنی کو آزادئ اظہارِ رائے کا نام دیا جارہا ہے۔
آئیے گستاخانہ خاکوں اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی جیسے واقعات کی تکلیف دہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسے واقعات سے عالمی سازشی عناصر کا مقصد کیا ہے؟ اور وہ مسلمانوں کے جذبات بھڑکا کر آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
قرآنِ پاک نذرِ آتش کرنے کے واقعات
ناروے میں اسلام مخالف ریلیاں نکالی جاتی ہیں جن میں بعض اوقات قرآنِ پاک نذرِ آتش کیا جاتا ہے جو اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں جو رواں سال واقع ہوا بلکہ اس کی تکلیف دہ تاریخ گزشتہ کچھ برسوں پر محیط ہے۔
سویڈن میں قرآنِ پاک کو جلانے کا واقعہ گزشتہ ماہ 28 اگست کو ہوا۔ جمعے کے روز سویڈن کے شہر مالمو میں ایک مشتعل ہجوم نے قرآنِ مجید کو نذرِ آتش کردیا جس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔
دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے قرآنِ پاک کو جلایا جس کے خلاف سینکڑوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر باہر نکلے اور شدید احتجاج کرتے رہے۔ مظاہروں سے روکنے پر پولیس نے پولیس پر مختلف چیزیں پھینکیں اور کار کے ٹائروں کو آگ لگا دی۔
ہنگامے اتنے شدید تھے کہ پولیس کو یہ کہنا پڑا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، ہمارے دائرۂ اختیار سے باہر ہے جسے قابو میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے اسی جگہ احتجاج کیا جہاں قرآنِ پاک کو جلایا گیا تھا جبکہ اس سے قبل قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کرنے کے دیگر تکلیف دہ واقعات بھی پیش آئے۔
ناروے کے شہر کریستیان سان میں گزشتہ برس نومبر کے دوران ایک اسلام مخالف ریلی نکالی گئی جس کے دوران انتہا پسند گروہ نے قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی۔ الیاس عمر نامی ایک مسلمان نوجوان نے اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے(ناروے کو مسلمان بنانا بند کرو) نامی تنظیم کے رکن کو اِس مذموم کوشش سے روک دیا۔
مقامی پولیس افسران وارننگ دیتے رہے لیکن تنظیم کے رکن لارس تھورسن نے اس کے باوجود قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی ، تاہم پاکستان سمیت دنیا بھر میں الیاس عمر نامی مسلم نوجوان کو بے حد سراہا گیا۔ مسلمانوں نے انہیں مسلم امت کا ہیرو اور قرآن کا محافظ قرار دیا۔
گستاخانہ فرانسیسی میگزین اور خاکے
فرانس کے دارالحکومت پیرس سے شائع ہونے والا ہفتہ وار جریدہ چارلی ایبڈو عام طور پر کارٹون، رپورٹس اور لطائف شائع کرتا ہے جو صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مسیحیت، یہودیت اور ثقافت کے خلاف بھی متنازعہ مضامین شائع کرتا رہتا ہے۔ یہ جریدہ 1970ء میں شروع کیا گیا جبکہ سن 1981ء میں ایسے ہی مضامین کی پاداش میں اسے بند کردیا گیا۔
سن 1992ء میں چارلی ایبڈو کو دوبارہ جاری کیا گیا جس کے بعد یہاں متنازعہ مضامین، کارٹون اور رپورٹس کثرت سے شائع کی گئیں جن کی پاداش میں سن 2011ء اور سن 2015ء میں میگزین کے دفتر پر حملے بھی ہوئے۔ یہ دونوں ہی حملے حضورِ اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر کیے گئے۔
پہلے حملے میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر پٹرول بم پھینکے گئے جبکہ دوسرا حملہ جو جنوری سن 2015ء میں ہوا، اس کے دوران 12 افراد مارے گئے جن میں چرب نامی پبلسنگ ڈائریکٹر اور جریدے کے بدنامِ زمانہ کارٹونسٹ بھی شامل تھے جنہوں نے گستاخانہ خاکے اپنے ہاتھوں سے بنائے۔ یہ میگزین ہر بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔
امریکی شہر ڈیلس کے قریب 3 مئی 2015ء کے روز کانفرنس سینٹر میں ایک نمائش بھی ہوئی جس میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے گستاخانہ خاکے دکھائے گئے۔ یہاں 2 مسلح افراد نے حملہ کردیا جنہیں پولیس نے گولی مار کر شہید کردیا۔ یہاں 1 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوا۔
کانفرنس میں ایک مقابلہ بھی رکھا گیا تھا جس میں گستاخانہ خاکوں پر 10 ہزار ڈالر کا انعام رکھا گیا تاکہ ایسے خاکے بنانے والے لعین افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور مسلمانوں کے جذبات کومزید مجروح کیا جائے۔
اِس سے بھی پہلے سن 2006ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار نے حضورِ اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے جس پر دنیا بھر کے مسلمان تڑپ اٹھے۔ دنیا بھر میں اخبار کے خلاف شدید مظاہرے کیے گئے۔
سینیٹ کی قرارداد
ہر بار جب گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے یا قرآنِ پاک کی بے حرمتی ہوئی، پاکستان نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ سن 2018ء میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد نئی حکومت نے سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی جس میں حکومت سے گستاخانہ خاکوں کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد شبلی فراز نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ مسلمان قوم حضورِ اکرم ﷺ کی توہین برداشت نہیں کرسکتی۔ ہالینڈ میں جو خاکے شائع کیے گئے، اس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے ساتھ ساتھ اسلامی تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس بھی بلایا جائے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی گستاخانہ خاکوں کی شدید مذمت کی۔
یہاں ایک اہم بات یہ ہوئی کہ جماعتِ اسلامی، ایم کیو ایم، متحدہ مجلسِ عمل اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی حکومت کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کی حمایت میں سامنے آئیں اور اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی گئی۔
بے حرمتی اور گستاخانہ خاکے کیوں؟
سینئر صحافی عباس مہکری کے مطابق مغربی ذرائع ابلاغ باضابطہ منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلم قوم میں اشتعال پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام کو بتایا جاسکے کہ مسلمان شدت پسند ہیں جو برداشت اور رواداری نہیں رکھتے۔ مسلمان ممالک میں انتشار پھیلانے سے وہاں فوجی مداخلت کا جواز ڈھونڈنا مقصود ہے۔
مذکورہ صحافی کے مطابق امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور اس کے بعد سے ہی انتہا پسندی میں اضافہ ہوگیا۔ مسلمان دانستہ و نادانستہ دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
تیسری عالمی جنگ کے خطرات
عباس مہکری کے مطابق بے نظیر بھٹو بھی اپنی کتاب مفاہمت میں تحریر کرچکی ہیں کہ مغرب اسلامی ممالک کا ایک بلاک بنانا چاہتا ہے جیسا کہ عیسائی ممالک میں پہلے سے نیٹو اور امریکا کے اتحاد کے نام پر موجود ہے۔ اس سے امریکا اسلامی بلاک کو اپنا دشمن بنا کر عوام کے سامنے پیش کرے گا اور جنگ کا جواز پیدا ہوگا۔
اگر ہم غور کریں تو ایسے اسلامی ممالک جو حضورِ اکرم ﷺ کی گستاخی اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتے اور اس پر کھل کر آواز اٹھاتے ہیں وہ چند گنے چنے ممالک ہیں جن میں پاکستان سب سے آگے نظر آتا ہے۔ پاکستان سمیت ایسے تمام ممالک کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔