کراچی کے علاقے لیاری کھڈا مارکیٹ میں منہدم ہونے والی مخدوش عمارتوں سے 3 افراد کی لاشیں اور 14 زخمیوں کو نکال لیا گیا ۔
تحقیقات سے گرنے والی عمارت کے منہدم ہونے میں متعلقہ اداروں کی سنگین کوتاہی واضح نظر آرہی ہے۔ نیا آباد کھڈا مارکیٹ کے قریب مخدوش عمارت کو مارچ کے مہینے میں ایس بی سی اے مخدوش قرار دے چکا تھا اور مارچ میں ہی 15 روز میں عمارت خالی کرنے کا نوٹس جاری ہوا۔
نوٹس جاری کیے جانے کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے صرف خانہ پُری کی۔ لیاری ٹاؤن کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر نے مبینہ نذرانہ وصول کیا جبکہ انہدامی کمیٹی کے افسران نے مجرمانہ چشم پوشی سے کام لیا اور عمارت منہدم ہونے تک انتظار کیا گیا۔
ایس بی سی اے(سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی) نے 16 مارچ کوعمارت کا معائنہ مکمل کر کے نوٹس دیا جبکہ یوٹیلیٹی سروسز کے اداروں ، سوئی سدرن گیس کمپنی( ایس ایس جی سی) ، کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی ( کے ای) اور ادارۂ فراہمی و نکاسئ آب کراچی ( کے ڈبلیو اینڈ ایس بی)کو 18 مارچ کو یوٹیلیٹی سروسز منقطع کرنے کا نوٹس بھیجا گیا۔
مارچ سے 2 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود تمام ہی ادارے اس عمارت کے منہدم ہونے کا انتظار کرتے رہے اور عمارت بالآخر گزشتہ روز منہدم ہو گئی۔18 مارچ کو کے الیکٹرک نے نوٹس وصول بھی کر لیا ، تاہم اس کے باوجود عمارت میں بجلی موجود تھی۔اسی طرح گیس ، پانی اور سیوریج لائنز بھی بدستور استعمال میں تھیں۔
ایس ایس پی سٹی مقدس حیدر نے عمارت خالی کرانے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ عمارت خستہ حال ہو جانے کی وجہ سے مکینوں کو نوٹس دیے گئے اور کئی خاندان فلیٹ خالی کر کے چلے گئے۔اتوار کی صبح عمارت میں ایک اور دراڑ آنے کے باعث بھی عمارت کے کئی گھر خالی ہو گئے تھے تاہم منہدم عمارت مکمل طور پر خالی نہ ہوسکی۔
مقدس حیدر نے مزید کہا کہ ملبے میں مزید کتنے لوگ دبے ہوئے ہیں اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔لیاری کھڈا مارکیٹ میں ملبے سے نکلنے والی لاش کی شناخت 36 سالہ فہیم کے نام سے ہوئی ہے جبکہ بلڈنگ حادثہ میں اب تک 2 خواتین سمیت 3 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
مزید امدادی کارروئیاں جاری ہیں، جس میں اب تک 14زخمیوں کو بھی نکالا جا چکا ہے جنہیں مختلف اسپتالوں میں پہنچا دیا گیا ۔ لیاری نیا آباد گلی نمبر 2 کھوکھر کچن والی گلی 6 منزلہ شیرین منزل زمین بوس ہونے سے پورے علاقے میں قیامت صغریٰ مچ گئی۔
رینجرز،پولیس، ایدھی، چھیپا، فائر بریگیڈ،دیگر فلاحی ادارے اور علاقہ مکینوں نے مل کر امدادی کارروائیاں شروع کی ہوئی ہیں ۔
واضح رہے کہ ہر عمارت جب تعمیرکی جاتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سبمشن پلان ایس بی سی اے سے منظور کرانا ہوتا ہے اور جب پلان منظور ہو جاتا ہے تو عمارت کی بنیاد رکھنے کیلئے مٹی کی تفتیش کی جاتی ہے کہ موجود مٹی کتنا وزن برداشت کرپائے گی۔
عمارت کا زلزلوں اور ممکنہ قدرتی آفات کے لیے ایک اسٹرکچرل ڈیزائن تیار کیا جاتا ہے۔عمارت کا مکمل نقشہ تیار کراکر منظور کرایا جاتا ہے جس میں عمارت کی ہر ایک حصے میں ڈالے جانے والے اسٹیل کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور آخر میں عمارت کی بنیاد( FOUNDATION) کو ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
ڈیزائن کو ایک ڈرائنگ کی شکل میں تیّار کرکے دوسرے تعمیراتی انجینئر کو جانچ پڑتال کے لیے دے دیا جاتا ہے اور اگر کوئی غلطی پائی جائے تو اسے درست کرکے ڈیزائن کو حتمی شکل دی جاتی ہے، پھر کہیں بلڈر کو عمارت تعمیر کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
لیکن لیاری کھڈہ مارکیٹ میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے متعلقہ افسران اپنا حصہ وصول کر کے بغیر نقشے اور دیگر منظوریوں کے غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دے دیتے ہیں جس کیلئے لاکھوں روپے کی بھاری رشوت وصول کی جاتی ہے۔