توہین قرآن اور مغرب و مشرق

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
The Israel-U.S. nexus for State Terrorism
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا
zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسٹاک ہوم میں دوبارہ قرآن کی بے حرمتی پرعراقی وزیراعظم محمد شياع السودانی نےسویڈن سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم اور اپنا سفیر واپس بلا لیا۔

عراق میں ٹیلیکام کمپنی ایریکسن سمیت سویڈن کی دیگر کمپنیوں کا کاروبارمعطل کردیا۔سویڈن کے وزیر خارجہ توبياس بلسترم نےعراق میں سفارتخانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسےویانا کنونشن کے خلاف اور ناقابل قبول قرار دیا۔
یہ سفارتی تنازع اس لیے کشیدگی اختیار کرگیا کہ عراق کے ایک مسیحی تارکِ وطن کو سویڈن پولیس نے سٹاک ہوم میں دوبارہ قرآن کی بےحرمتی کرنے کی اجازت دی۔اس کے ردعمل میں سینکڑوں افرادعراق میں سویڈن کے سفارتخانے میں داخل ہوگئے.عینی شاہدین اور ویڈیوز کے مطابق سلوان مومیکا نےحالیہ واقعے میں قرآن کو نذر آتش نہیں کیا بلکہ اس پرنعوذ باللہ اپنا پاؤں رکھا۔ گذشتہ ماہ اس نے قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔مسلم ممالک نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ سویڈن میں مظاہروں کے دوران قرآن کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے مقدس کتاب کے ماننے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ادھر پوپ نے بھی مومیکا کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔سلوان مومیکا کےبقول وہ ایتھیسٹ( ملحد) ہے، یعنی کسی مذہب کو نہیں مانتا۔اس کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔
19ویں صدی تک سویڈن میں توہین مذہب کے سخت قوانین موجود تھے جنھیں ملک کے سیکولر بننے کے بعد ختم کر دیا گیا۔سویڈن میں ایسا کوئی قانون نہیں جو قرآن یا کسی اور مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کی اجازت دے۔تاہم یہاں حکومت نہیں،پولیس احتجاجی مظاہرے اور عوامی اجتماع کی اجازت کا فیصلہ کرتی ہے ۔کسی مظاہرے کا اجازت نامہ روکنے کے لیے سویڈن پولیس کو مخصوص وجہ بیان کرنا ہوتی ہے، جیسےعوامی تحفظ کو لاحق خطرات۔فروری میں قرآن نذر آتش کرنےکےدو مظاہروںکی اجازت اس لیےروکی گئی کہ ایسے واقعات سےملک میں دہشتگردی کے حملوں کا خطرہ ہے۔تاہم عدالت نے اسےمستردکیااورکہا کہ عوامی اجتماع پر پابندی کے لیے پولیس کو مزید ٹھوس خطرات کا حوالہ دینا ہوگا۔
اسی دوران ایک شامی نوجوان احمدعلوش نے سویڈن میں تورات اور انجیل جلانے کا اعلان کر دیا۔سویڈش پولیس نےاسٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر اس اقدام کی اجازت دی تواسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ سمیت متعدد نمائندوں اور یہودی تنظیموں یہاں تک کہ امریکہ نے بھی سویڈش پولیس کے اس فیصلے کی مذمت کی۔
احمد نے مقررہ دن اسرائیلی سفارت خانے کے باہر لائٹر نکالا اور میڈیا کی موجودگی میں یہ کہتے ہوئے پھینک دیا، کہ اس کی نیت مقدس کتب کو جلانے کی نہ تھی “اس کا مقصد قرآن جیسی مقدس کتابوں کو جلانے والوں کی مذمت ہے نہ کہ تورات یا انجیل کے نسخے کو نذرآتش کرنا۔ یہ ان لوگوں کا جواب ہے جو قرآن کو جلاتے ہیں۔ میں یہ دکھانا چاہتا تھاکہ اظہار رائے کی آزادی لا محدود نہیں اس کی کچھ حدیں ہوتی ہیں،جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ہمیں ایک معاشرے میں رہتے ہوئےایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔اگر میں تورات، کوئی دوسرا بائبل اور کوئی تیسرا شخص قرآن جلائے گا تو یہاں ایک جنگ شروع ہو جائے گی۔میں یہ دکھانا چاہتا تھاکہ ایسا کرنا درست نہیں ہے۔”یہ مشرق ومغرب کا فرق ہے کہ ایک طرف قرآن مجید جلانے کو اظہار رائے کی آزادی اور دوسری جانب تورات وانجیل کو جلانا گوارا نہیں کیا جا تا۔
مغربی دنیا وقفے وقفے سے ایسے واقعات بپا کرکے مسلم دنیا کی ایمانی غیرت کا درجہ حرارت چیک کرتی ہے۔سلمان رشدی کو اس کی ہفوات پر سر کا خطاب اور ’اعلیٰ ادب‘ کے انعامات سے نوازاگیا۔ یہاں تک کہ امریکہ میں( اگست 2022ء )ایک مسلم نوجوان کے حملے میں ایک آنکھ کی بینائی ضائع اور بازو مفلوج ہو گیا۔انتہاء پسندی قابل نفرت فعل ہےاس کاانسانیت اورانسانی اخلاقیات سےکوئی تعلق نہیں۔بد قسمتی سےانتہا پسندی اب ایک عالم گیر مسئلہ ہے جسے مسلم امہ سے نتھی کرکےایک اور انتہا پسندانہ بیانیہ بنادیا گیا ہے۔ کسی فرد کا شخصی مجرمانہ فعل تو جاہلیت اور عدم واقفیت کی بناء پر ممکن الوقوع ہے لیکن جب لبرل ازم اور شخصی آزادی کو بنیاد بنا کر ایسے ملزم یا مجرم کا ریاستی دفاع کیا جائے تو پھر مسلم امہ کی جانب سے اشتعال انگیزی، تہذیبی تصادم اور شدت پسندی کی راہیں کھلنا ایک منطقی عمل ہے۔
حقیقی لبرل ازم میں فرد کی آزادی معاشرے کے دیگر افراد کے احترام اور حریَت سے مشروط ہوتی ہے جس کا کم ازکم دائرہ یہ بنتا ہے کہ ہر انسان کو اُس کے جان، مال، آبرو اور عقیدہ و مذہب کے تحفظ کا حق مساوی طور پر حاصل ہے۔ آئے روز مغربی سرزمین پر توہینِ رسالت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور توہینِ قرآن کے مذموم واقعات مغربی لبرل ازم کے بطن میں موجود تعارض و تضادکی واضح نشان دہی کرتے ہیں۔ انسانی کے مذہبی شعائر اور مسلّمات پر حملہ لبرل ازم ہے نہ ریشنل ازم بلکہ مسلّمہ انتہاء پسندی ہے۔ مغربی دنیا یہ غلط رائے قائم کیے ہوئے ہے کہ قرآنی تعلیم پر ایمان رکھنے والی مسلم کمیونٹی دیگر عقائد و مذاہب کو برداشت کرنے سےقاصر ہے اور اسلام میں دوسرے افکار کو جبراً مٹانا جہاد کہلاتا ہے،حالاں کہ یہ حقیقت نہیں۔ مسلم عروج کی پوری تاریخ فکری تکثیریت، ثقافتی تنوّع اور مذہبی رواداری سے عبارت ہے۔ارشاد باری تعالٰی ہے کہ “دینِ میں کوئی زبردستی نہیں “اور سورۃ الکافرون میں یہ پیغام دیا گیاکہ’ تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین”۔جہاد کا فرد کے عقیدہ و مذہب یا ثقافت کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔ مدینہ منورہ کی ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں کو برابر کے سیاسی و سماجی حقوق حاصل تھے۔
مغرب کاایک اور فکری مغالطہ یہ ہے کہ اسلام میں جدّت، عقلیّت اور عصریّت کی گنجائش نہیں ۔حالاں کہ قرآن کے اصل مخاطبین تو اہل عقل و بصیرت ہیں: ’’کیا وہ تدبّر نہیں کرتے۔‘‘ ’’کیا وہ غور و فکر نہیں کرتے۔‘‘ اسلام سائنس، ٹیکنالوجی اور سماجی و ذہنی ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ مفاد میں سائنس کو مذہب اور مشین کو انسانیت کا متبادل بنا کر پیش کرنے کی مغربی انتہاء پسندانہ فکر اور استحصالی کردار کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔انسانیت کی مادی و سائنسی ترقیات اور اس کے ثمرات اس وقت تک نامکمل اور ادھورے رہیں گے تاوقتیکہ انسانیت کی جامع و فطری ترقی کے لیے قرآن کے عالم گیر، انسانیت گیر اور آفاقی دامن میں پناہ نہ لی جائے۔
یہ تعلیمات دراصل اسلام اور قرآن کی وہ اصل روح ہیں جنہیں میڈیا اور پروپیگینڈہ وار نے دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ اپنوں نے حقیقت سے غفلت برتی تو پھر دشمنوں نےکام کر دکھایا۔ کسی نے کہا کہ قرآن عدم برداشت کو ہوا دیتا ہے تو کوئی قرآن کو انتہاء پسندی اور فساد سے جوڑنے کا بہتان تراشنے لگا، کسی نے قرآن کو ترقی کا دشمن گردانا تو کوئی اس سے خواہ مخواہ خوف کھانے لگا۔قرآن قیامت تک آنے والی انسانیت کے تمام انفرادی و اجتماعی مسائلِ کا جامع و اصولی حل پیش کرنے والی بے نظیر انقلابی کتاب ہے۔ قرآن حکیم کی سب سے پہلی آیت عالمگیریت اور سب سے آخری سورۃ اور آیت انسانیت کے آفاقی عنوانات کو اپنے اندر سموئے ہر ذی شعورکو دعوت فکر دے رہی ہیں۔
’’تمام تعریفیں ﷲ کے لیے ہیں جو تمام جہانوںکا رب ہے۔‘‘
“میں پناہ مانگتا ہوں تمام انسانوں کے پروردگار کی۔”112
قرآن حکیم کی ہر ایک سطر اور ہر ایک آیت ان تمام فکری مغالطوں اور کج فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے جس کی آج دنیا شکار ہے۔ قرآن حکیم کے نسخوں کو نذر آتش کرنے سے کرّہ ارضی آگ کا ایسا گولہ نہ بن جائے جہاں انسانیت تو کیا زندگی کا وجود ہی ناپید ہو کر رہ جائے۔
مغربی دنیا مسلم حکمرانوں کی فدویت، غلامانہ خوبو، سوشل میڈیا پر براجمان طبقے کو امت مسلمہ کا ترجمان سمجھ کر غلط اندازے لگائے ہوئے ہے۔سویڈن عوام نے بھی مقدس کتب کو سرعام آگ لگانے کے خلاف ایک سروے میںرائے دی اور اس سلسلے کو بند کرنے کو کہا۔ یو این حقوق انسانی کونسل نے سویڈن میں قرآن جلانے کے تناظر میں مذہبی منافرت کے خلاف قرارداد منظور کی، جس کی امریکا نے مخالفت کی اور یورپی یونین نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔مغربی دنیا اپنے طرز عمل سے باز نہیں آتی تو ہمیں اپنی روش بدل کر قرآن سے عمل کا تعلق جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے اورعلامہ اقبال کے بقول خودکو مغرب کی بےجا تقلید سے آزاد کرلینا چاہیے۔
اے بہ تقلیدش اسیر آزاد شو
دامنِ قرآں بگیر آزاد شو!

اے (وہ شخص) جوبے جا قسم کی پیروی کا غلام بنا ہوا ہے اس سے آزاد ہوجا۔ قرآن کریم کا دامن تھام اور صحیح معنوں میں آزاد ہوجا۔

Related Posts