ملک بھر میں سیلاب سے جو تاریخی نقصان اور تباہی ہوئی ہے، اس کا ازالہ کرنے کیلئے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی برادری بھی امداد دے رہی ہے تاہم یہ تمام تر کاوشیں اس وقت تک بے سود ہیں جب تک کہ پاکستان پر واجب الادا کھربوں کے سود زدہ قرضوں سے نجات کی راہ ہموار نہیں کی جاتی۔
آئی ایم ایف نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے پاکستان کو 1 ارب 16 کروڑ ڈالر قرض جاری تو کیا لیکن ہم پر عائد کی گئی شرائط میں نرمی کا کوئی عندیہ نہیں دیا جو پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی کا شکار ملک کے ساتھ سراسر ظلم ہے جسے دیگر ممالک کی ریشہ دوانیوں کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ہمیشہ جب بھی کوئی آسمانی آفت آتی ہے تو ایک طبقہ اسے اللہ کی طرف سے آزمائش قرار دیتا ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ یہ ہماری ہی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے تاہم پاکستان میں آنے والا سیلاب نہ تو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی آزمائش ہے اور نہ ہی ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ بلکہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے۔
عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کا 1 فیصد سے بھی کم پیدا کرنے کے باوجود پاکستان کو عالمی سطح پر موسمیاتی بحران کے بد ترین نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ 20 سال میں پاکستان کو گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس میں دنیا کے 10 چوٹی کے ممالک میں مستقل شامل رکھا گیا۔
اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کے شعبۂ انسانی ہمدردی سے متعلق کو آرڈی نیٹر جولین ہارنیس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سپر سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آیا جس کی وجوہات بین الاقوامی ہیں۔ گویا اقوامِ متحدہ پاکستان میں آنے والے سیلاب کا ذمہ دار پاکستانیوں کو نہیں بلکہ دیگر اقوام کو سمجھتا ہے۔
دراصل شدید موسمی اثرات کے باعث صفِ اوّل کے ممالک کو بد ترین موسمی اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں پاکستان کے علاوہ موزنبیق جیسے ممالک شامل ہیں جو فنڈنگ میں کمی کا سامنا کرتے ہیں اور ان کے پاس معیشت کی تعمیرِ نو کیلئے مزید قرض لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان تو سیلاب سے قبل ہی قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا اور کبھی ڈیفالٹ کر جانے تو کبھی دیوالیہ ہونے کے خدشات زباں زدِ عام تھے۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی اجناس کی قیمتوں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث زرِ مبادلہ میں زبردست گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
بجلی، اشیائے خوردونوش، دالیں، سبزیاں اور پھلوں سمیت ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ سیلاب کے دوران فصلیں تباہ ہوجانے کے باعث مزید مہنگائی ہوئی۔ رواں سال کے آخر تک پاکستان کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کو 38 ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔
اگر مغربی دنیا سیلاب جیسے عفریت کا سامنا کرنے کیلئے پاکستان کی مدد کرنا ہی چاہتی ہے تو اسے صنعتی انقلاب کے بعد سے گلوبل نارتھ کی جانب سے جنوب کو پہنچنے والے نقصانات سے نمٹنے کا ایک سلسلہ نافذ کرنا ہوگا اور ایک پہلے مثبت قدم کے طور پر قرضوں کی جامع منسوخی اس میں شامل کرلی جائے تو یہ پاکستان جیسے سیلاب زدہ ملک کیلئے بڑا ریلیف ہوگا۔