وفاقی حکومت نے قومی احتساب بیورو کو نیب آرڈیننس میں ترامیم کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بے دست و پا کردیا جس کے بعد اینٹی کرپشن کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 50 کروڑ سے کم کرپشن کے نیب کیسز کی تحقیقات اینٹی کرپشن پنجاب کرے گا۔
ایک طرف تو یہ فیصلہ احتساب کے نعرے لگانے والے تحریکِ انصاف کے قائدین، سپورٹرز اور کارکنان کیلئے پرکشش ہے جبکہ دوسری جانب اس سے سیاسی محاذ آرائی کا نیا راستہ کھل گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اپنے متعدد بیانات میں کہہ چکے کہ پنجاب حکومت کو کسی بھی وقت گرایا جاسکتا ہے۔
غور کیجئے تو پنجاب حکومت اور وفاق میں محاذ آرائی کوئی نئی بات نہیں رہی جس کی گونج سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے اور حمزہ شہباز کے حلف اٹھانے سے لے کر موجودہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے حالیہ بیانات تک میں سنائی دیتی ہے۔
محکمۂ انسدادِ بدعنوانی (اینٹی کرپشن) کی جانب سے نیب لاہور کو لکھے گئے خط کے بعد 50 کروڑ سے کم کے کیسز کی تفصیلات حاصل کی جائیں گی اور ایک بار پھر سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا کیونکہ موجودہ حکومت کا فرمانا یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف سے لے کر خورشید شاہ تک پر قائم تمام تر کیسز سیاسی اور بے بنیاد ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ کیسز بے بنیاد تھے تو قومی احتساب بیورو جیسے اہم قومی ادارے کو ایسے فضول کیسز میں کیوں الجھایا گیا؟ میڈیا کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر قوم کا وقت کیوں برباد کیا گیا کہ فلاں پر آج فردِ جرم عائد ہوگی اور فلاں نے جو اربوں کی رقم ہضم کر لی تھی، وہ قومی خزانے میں واپس آجائے گی۔
اسی طرح ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر کیسز بے بنیاد اور سیاسی نہیں تھے اور بالکل حقیقت پر مبنی تھے تو قومی احتساب بیورو سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساڑھے 3 سال سے زائد عرصے پرمحیط دور میں انہیں ثابت کیوں نہ کرسکی؟ اور نیب جو اربوں روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کا دعویٰ کرتا ہے، ان سے پاکستان کی معیشت بہتر کیوں نہ ہوئی؟
واضح رہے کہ احتساب عدالتوں نے 50 سے زائد کیسز یہ کہتے ہوئے نیب کو واپس بھجوا دئیے تھے کہ قومی احتساب بیورو کو اب 50 کروڑ سے کم کی کرپشن پر مبنی کیسز پر تحقیقات کا حق نہیں اور نیب کی جانب سے بھی یہ بیانیہ سامنے آیا تھا کہ ہم آئندہ نیب آرڈیننس کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ہی اپنے کام کو یقینی بنائیں گے۔
قوم کیلئے اینٹی کرپشن پنجاب کا 50 کروڑ سے کم کرپشن کیسز اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ ایک حد تک خوش آئند ضرور ہوسکتا ہے کہ قوم کی لوٹی گئی دولت کسی طرح ملکی خزانے میں واپس آجائے اور ملک کی ہچکولے کھاتی معیشت کو کسی طرح سہارا دیا جاسکے تاہم اس سے پنجاب اور وفاق میں جو محاذ آرائی شروع ہونے کا خدشہ ہے، اسے کیسے روکا جائے گا؟