بنوں میں مذہبی رہنماؤں کے دباؤ اور احتجاج پر بیالوجی کے استاد اور مقامی سماجی ایکٹوسٹ شیر علی نے اپنے خیالات اور سرگرمیوں سے عوامی طور پر توبہ و رجوع کرکے معافی مانگ لی۔
پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں کے بیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر شیرعلی نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں اسٹام پیپر پر لکھا ہوا بیان حلفی پڑھ کر ڈارون کے نظریہ ارتقا اور خواتین کے حقوق سے متعلق اپنے خیالات سے رجوع کرلیا۔
اسسٹنٹ پروفیسر نے کیا کہا تھا؟
بنوں کے علاقے ڈومیل سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ پرفیسر شیر علی نے پشاور یونیورسٹی سے بیالوجی میں ماسٹرز اور اسلام آباد سے ایم فل کر رکھا ہے۔ وہ گزشتہ 15 سال سے درس وتدریس سے وابستہ اور خواتین کے حقوق کے سرگرم کارکن ہیں۔
اقوام متحدہ اجلاس میں امریکا کو رسوائی کا سامنا، شرکا نے “لیکچر” سننے سے انکار کر دیا
بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈارون کے نظریہ ارتقا کے قائل تھے اور بیالوجی کے اپنے اسباق کے دوران کلاس میں شاگردوں کو اس نظریے کی تائید میں مثالیں بھی دیتے تھے جو بیالوجی کی کلاس میں عام طور پر ایک معمول ہے۔
خواتین کے حقوق پر بات کرنا جرم بن گیا
ذرائع کے مطابق شیر علی عورتوں کے حقوق کے بھی سرگرم کارکن تھے اور عورتوں کو کم عقل سمجھنے اور انہیں مردوں سے کم تر ثابت کر کے گھر کی چاردیواری کے اندر تک محددو کرنے کے خلاف تھے اور اس پر تواتر سے بات بھی کرتے تھے۔
تاہم شیر علی کیخلاف اس وقت حالات زیادہ خراب ہوئے جب دو ماہ قبل ان کے علاقے ڈومیل کی خواتین کو بینظر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی امداد کے حصول کیلئے (BISP) کے دفتر جانے پر علاقے عمائدین اور علماء نے پابندی لگا دی۔
معاشرتی مسائل کے خلاف آوز اٹھانے والے کچھ ہم خیال افراد نے اس پابندی کے خلاف علاقے میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا تاکہ لوگوں کو خواتین کے خلاف ہونے والی اس ناانصافی کے بارے میں آگاہی دی جا سکے، ان افراد میں اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی بھی شامل تھے۔
سیمینار کے مقررین میں اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی نے خواتین کے حقوق، اُن سے وابستہ کئے گئے روایتی تصورات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ برقع یا عبایا نہ تو پختون روایات کا حصہ ہے اور نہ ہی اسلام میں اس کا ذکر ہے۔
انھوں نے اپنی تقریر میں ترکیہ اور ملائشیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کیا ہم اُن سے بڑے مسلمان ہیں، انھوں نے خلفاء کے زمانے میں خواتین کے حق مہر کے مسئلے پر پوچھے گئے سوال کی بھی مثال دی کہ عورت اپنے حق کی بات کر سکتی ہے۔
سیمینار کے انعقاد کے تین ہفتے بعد اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی اور ان کے خاندان کو علاقے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جمعے کے خطبات یا پھر جنازے اور کوئی بھی سوشل سرگرمی، علاقہ علماء کی طرف سے اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی اور ان کے خاندان کے خلاف پرپیگنڈے کا آغازہو گیا۔ خاندان کا سوشل بائیکاٹ تک کیا گیا اورانہیں طرح طرح سے ہراساں کیا جانے لگا۔
حالات جب انتہائی کیشدہ ہوئے تو کچھ عمائدین اور ضلعی ایڈمنسٹریشن نے درمیان میں آکر اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی کو معاملہ ختم کرنے پر مجبور کیا اور یوں گزشتہ روز 60 سے زائد علماء، علاقہ عمائدین اور ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں اسسٹنٹ پروفیسر شیرعلی نے ایک بیان حلفی پر دستخط کر کے علماء سے اپنے نظریات پر باقاعدہ معافی مانگ لی۔
بیان حلفی میں کیا لکھا تھا؟
شیر علی نے علماء کا لکھا ہوا جو بیان حلفی پڑھ کر سنایا، اس کے مطابق شریعت الہیہ کی رو سے عورت کی عقل مرد کی نسبت کم ہے، لہذا اسی کو حق اور حرف آخر سمجھتا ہوں۔
زنا بالجبر اورزنا بالرضا کو شرعاً جرم سمجھتا ہوں۔ اجنبی عورت کا مردوں کیساتھ اختلاط ضرورت کے بغیرجائز نہیں۔
شریعت الہیہ کے خلاف جتنی بھی سائنسی و عقلی افکار ونظریات ہیں ان تمام کو باطل سمجھتا ہوں مثلا ڈارون کا نظریہ ارتقاء۔
اب تک مذکورہ بالا کیخلاف میں نے جتنی باتیں کی ہیں یعنی ڈومیل سیمینار، لیکچروں، سوشل میڈیا پر پوسٹوں وکمنٹس اور دیگر مجالس میں، ان تمام سے میں برات کا اعلان اور توبہ کرتا ہوں۔ آئندہ ان احکامات کی خلاف ورزی کی تو قانونا مجرم ثابت ہوں گا۔
سوشل میڈیا پر رد عمل
مذہبی حلقے کی جانب سے سوات میں لڑکیوں کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کے بعد شیر علی کو اپنے نظریات سے رجوع پر مجبور کرنے پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اسے ملک کے اندر پھیلی ہوئی مذہبی شدت پسندی کی سنگین ہوتی صورتحال کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں معروف سوشل ایکٹوسٹ اور سینئر صحافی سبوخ سید نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ شیئر کی ہے اور اپنے انداز میں اس پر بات کی ہے۔
انہوں نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ عرصہ پہلے ان (شیر علی) کی گاڑی میں بم نصب کیا گیا تھا جس میں وہ بچ تو گئے لیکن ایک پاؤں سے معذور ہو گئے۔