اداکارہ عظمیٰ خان کے گھر پر حملے کی ایف آئی آر، ویڈیوز اور ہماری اخلاقی ذمہ داریاں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Uzma Khan withdrew the case against Amna Malik

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستانی فلم انڈسٹری کی اداکارہ عظمیٰ خان کے گھر پر حملے اور تشدد کا واقعہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کافی وقت تک ایک ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا جبکہ اداکارہ عظمیٰ خان کے ایف آئی آر میں دئیے گئے بیان کے مطابق 2 خواتین چاند رات کے وقت ان کے گھر گھس آئیں اور ان پر حملہ کردیا۔

اداکارہ عظمیٰ خان کے مطابق ملک ریاض کی 2 بیٹیاں مبینہ طور پر میرے گھر میں گھسیں اور انہوں نے مجھے تشدد اور ہراسگی کا نشانہ بنایا اور میرے گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ عظمیٰ خان کے وکیل حسان نیازی کے مطابق خواتین نے ان کے کپڑے پھاڑے اور گھر میں موجود کچھ سامان چوری بھی کیا۔

اس معاملے کو قومی اہمیت اس وقت ملی جب وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور پولیس واقعے کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرے۔ اگر کسی طاقتور نے قانون کو توڑا ہے تو اس کا احتساب ہونا چاہئے تاہم ہمارا آج کا سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات پر من حیث القوم ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟

سوال یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر ظلم و تشدد کرے تو کیا اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونی چاہئے؟ ذاتی نوعیت کے معاملات جو کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں آئے روز جاری ہیں، انہیں مشتہر کرنا اخلاقیات کے اعتبار سے کیسا ہے؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر آپ ایسی کوئی ویڈیو دیکھیں تو آپ کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے؟

آئیے اداکارہ عظمیٰ خان پر تشدد کے واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے ہی تمام سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمیں بھی یہ اندازہ ہوسکے کہ یہ واقعہ دراصل کیا تھا اور اسے کس طرح پیش کیا گیا؟ عظمیٰ خان نے جو مقدمہ قائم کیا، اس کے مندرجات پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے عظمیٰ خان کو جان لیجئے کہ وہ کون ہیں۔

عظمیٰ خان کی اداکاری اور فلمی کیرئیر

عظمیٰ خان کی سب سے بڑی پہچان اداکاری اور ماڈلنگ ہے۔ انہوں نے وار نامی پاکستانی فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے جو ہٹ رہی اور عظمیٰ خان بھی مشہور ہو گئیں۔

فلموں کی دنیا میں وار کے ذریعے قدم رکھنے والی عظمیٰ خان نے جوانی پھر نہیں آنی کے 2 پارٹس میں بھی اداکاری کی اور فلم اسٹار ہمایوں سعید کے ساتھ نظر آئیں جس میں ان کی اداکاری سراہی گئی۔

وار اور جوانی پھر نہیں آنی کے علاوہ عظمیٰ خان تیری میری لو اسٹوری اور یلغار میں بھی اداکاری کرچکی ہیں جس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ عظمیٰ خان کا فلمی کیرئیر کس نہج پر چل رہا ہے۔ 

ایف آئی آر کے مطابق عظمیٰ خان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ

گزشتہ روز عظمیٰ خان کی مدعیت میں لاہور کے ایک پولیس اسٹیشن میں ملک ریاض کی 2 صاحبزادیوں کے ساتھ ساتھ 16 افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمے (ایف آئی آر)  کا اندراج عمل میں لایا گیا جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ملک ریاض کی 2 صاحبزادیاں منظم انداز میں مسلح غنڈوں کو لے کر گھر میں زبردستی داخل ہوئیں۔

ایف آئی آر کے  مندرجات کے مطابق جب حملہ کیا گیا تو اپنی ہمشیر ہما خان کے ساتھ رہنے والی اداکارہ عظمیٰ خان اعتکاف میں بیٹھی تھیں۔ عید کا اعلان ہوا تو عظمیٰ خان اعتکاف سے اٹھ گئیں۔دونوں ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے کہ مسلح ملزمان گھر کا دروازہ توڑ کر اندر گھس آئے۔ ملزمان نے دونوں بہنوں پر اسلحہ تان لیا۔

مندرجات کے مطابق آمنہ عثمان ملک نے ایک شیشے کی بوتل عظمیٰ خان کی بہن کو دے ماری۔ ریاض ملک کی بیٹیوں نے عظمیٰ خان کو مارنا شروع کردیا۔ گارڈز نے تجوریاں توڑ کر سارا سامان نکال لیا۔ دونوں کو دھمکی دی گئی اگر کسی کو اس واقعے کا بتایا تو تم لوگوں کی لاشیں بھی پہچاننے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔

مقدمے کے متن کے مطابق ایک نامعلوم گارڈ کو جنسی زیادتی کا کہا گیا،   تاہم توڑ پھوڑ، تشدد اور ہراساں کرنے کے بعد ملزمان ڈائمنڈ رنگز، آئی فون اور دیگر 50 لاکھ روپے مالیت کا سازوسامان عظمیٰ خان اور ہما خان کے گھر سے لے کر چلتے بنے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز 

عظمیٰ خان کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک نامعلوم خاتون انہیں ہراساں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ویڈیو میں عظمیٰ اور ہما خان دونوں خوفزدہ نظر آتی ہیں۔ نامعلوم خاتون ان پر چلاتی ہیں اور دونوں خواتین انہیں کہتی ہیں کہ آنٹی ہمیں بس ایک آخری موقع دے دیں۔

نامعلوم خاتون کہتی ہے کہ تم آنٹی کس کو کہہ رہی ہو؟ میں تم سے صرف 6 سال بڑی ہوں۔خاتون ان سے پوچھتی ہے کہ سچ بتاؤ تم عثمان کے ساتھ کیا کیا کرتی تھی؟ دونوں کہتی ہیں کہ کچھ بھی نہیں اور ویڈیو ختم ہوجاتی ہے۔ ایک اور ویڈیو میں گارڈز اداکارہ عظمیٰ خان کو پکڑ کر ہراساں کرتے ہیں۔

 دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون جوتے کے ذریعے عظمیٰ خان پر تشدد کرتی ہے اور شیشے کے بنے ہوئے شوپیس بھی ان پر پھینکی جاتی ہیں جبکہ ایک اور ویڈیو میں لیونگ روم کی حالتِ زار دکھائی گئی ہے۔ لیونگ روم میں دکھایا گیا ہے کہ جگہ جگہ گھر میں ٹوٹی ہوئی چیزیں بکھری ہوئی ہیں اور گھر کا فرش خون کے نشانات سے سرخ ہوگیا ہے۔

ویڈیو میں کچھ خواتین چند مردوں اور سیکورٹی گارڈز کے ساتھ عظمیٰ خان کے گھر میں گھس کر ان سے پوچھ گچھ کرتی ہیں جس کے بعد ایک اور ویڈیو منظرِ عام پر آگئی۔نئی ویڈیو میں ایک خاتون خود کو عثمان ملک کی بیوی ظاہر کرکے بتاتی ہے کہ میرا نام آمنہ ملک ہے جبکہ عثمان ملک کا ملک ریاض سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

فریقین اور قانون  کی ذمہ داریاں

یہ افسوسناک واقعہ جو عظمیٰ خان اور ان کی ہمشیرہ کے ساتھ پیش آیا، اس میں دونوں طرف سے فریقین کی ذمہ داری بنتی تھی کہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج یا بیانات کو منظرِ عام پر نہ لایا جائے بلکہ اسے قانون کے سامنے رکھا جائے۔

دوسری جانب قانون کی یہ ذمہ داری ہے کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ تفتیش کی جائے اور اس کے حقائق کو منظرِ عام پر لایا جائے، نہ کہ واقعے کی سی سی ٹی  وی فوٹیج سے عوام کو پریشان کیا جائے کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج واقعے کی تمام تر تفصیلات بتانے سے قاصر ہے۔

ویڈیوز اور ایف آئی آر کے تناظر میں ہماری ذمہ داریاں

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ عظمیٰ خان کے ساتھ جو ظلم ہوا اس پر سوشل میڈیاصارفین کھل کر ظالموں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، تاہم یہ واقعہ حقیقتاً کیا ہے، اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس پر قانون کو حرکت میں آنا چاہئے، نہ کہ سوشل میڈیا صارفین کو۔

سمجھنے والی بات ایک اور بھی ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق جس روز واقعہ پیش آیا، ایف آئی آر اس کے 2 روز بعد درج کروائی گئی۔ اس کے علاوہ واقعہ جنسی تشدد، توڑپھوڑ اور ہراسانی کا ہے یا کرایہ داری کا مسئلہ؟اس پر دونوں جانب کے بیانات الگ الگ نظرآتے ہیں۔

نامعلوم خاتون کا یہ سوال کہ تم عثمان کے ساتھ کیا کرتی تھی؟ عظمیٰ خان کے کردار پر بھی سوالات اٹھاتا ہے، تاہم بطور سوشل میڈیا صارف اور پاکستانی شہری کے، ہماری ذمہ داریاں اس سے مختلف ہیں۔ قانون یہ کہتا ہے کہ جب تک کسی واقعے کے حقیقی محرکات معلوم نہ ہوں، اس پر رائے زنی درست نہیں۔

سوشل میڈیا صارفین کو چاہئے کہ کسی ایک فریق کو برا بھلا کہنے کی بجائے قانون شکنی کی مذمت کریں۔ مثال کے طور پر ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ خواتین اور مسلح گارڈز گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتے ہیں، حالانکہ اگر واقعہ رقم کے لین دین یا ذاتی جھگڑے کا تھا تو قانون کا سہارا لیا جاسکتا تھا۔

دوسری جانب عظمیٰ خان نے واقعے کی مکمل ویڈیو اپ لوڈ کرنے کی بجائے عوام کو وہی حصے دکھائے جو ان کے حق میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ مسلح افراد مشکوک سہی، لیکن کچھ نہ کچھ سوالات مظلوموں پر بھی اٹھتے ہیں جن کا جواب صرف قانون تلاش کرسکتا ہے۔ تب تک ہمیں صرف انتظار کرنا ہوگا!

Related Posts