وطنِ عزیز پاکستان میں آزادئ اظہارِ رائے کے تحفظ کے دعوے اپنی جگہ، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت کی قائم کردہ حکومتیں میڈیا پر حملوں کو روکنے میں ناکام نظر آئیں۔
عوامی حمایت سے برسرِ اقتدار آئی ہوئی کسی بھی حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا، تاہم یہ زمینی حقائق بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیے جاسکتے کہ آزادئ اظہارِ رائے کا تحفظ جو حکومتوں کی اوّلین ترجیح ہونا چاہئے تھا، اس کیلئے ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
کراچی میں نجی نیوز چینل کے مرکزی دفتر پر حملہ کیا گیا جس کی مذمت آج ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، ایسوسی ایشن آف کورٹ رپورٹرز، لاہور الیکٹرانک میڈیا رپورٹر ایسوسی ایشن، سیاسی، مذہبی اور مزدور یونینز نے کی۔ آئیے مذکورہ واقعے سمیت پاکستان بھر میں آزادئ اظہارِ رائے سے متعلق صورتحال کے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل اور اخبار کے دفتر پر حملہ
آج کراچی میں نجی چینل کے مرکزی دفتر پر حملے کا مقدمہ میٹھا در تھانے میں درج ہوا اور واقعے کے 13 ملزمان کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ پولیس نے مقدمے میں دہشت گردی، اقدامِ قتل اور املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ دیگر دفعات کو شامل کیا ہے۔
میٹھا در پولیس کے مطابق مقدمہ نجی نیوز چینل کے سیکیورٹی سپروائزر کی مدعیت میں نامزد ملزم مشتاق سرکی اور 13 گرفتار ملزمان کے خلاف ہے جس میں تقریباً 200 نامعلوم ملزمان بھی نامزد ہیں۔ایف آئی آر کے مطابق مشتعل افراد نجی چینل کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے کیلئے آئے جن کی قیادت مشتاق سرکی نے کی اور مظاہرین میں سے کچھ لوگ ٹیلی فون پر کسی سے رابطے میں بھی رہے۔
اچانک مذکورہ مشتعل افراد دفتر کا مرکزی دروازہ توڑ کر داخل ہوئے، ملازمین کو یرغمال بنایا اور جیو کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی، ملازمین نے مشتعل افراد کو سمجھایا تاہم مرکزی ملزم مشتعل سرکی اشتعال پھیلانے میں مصروف رہا۔ مظاہرین میڈیا نمائندگان اور انتظامیہ کو جان سے مارنے اور چینل بند کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس اور رینجرز کو اطلاع کردی گئی اور سیکیورٹی اہلکاروں نے 13 افراد کو موقعے پر حراست میں لے لیا۔ واقعے کا مقدمہ درج کیے جانے کے بعد گرفتار افراد کے خلاف قانونی کارروائی اور مزید تفتیش جاری ہے۔
مذمتی بیانات
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اور پرتشدد مظاہرے قابلِ معافی نہیں ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ صحافیوں کی آزادی اور آزادئ اظہارِ رائے کو یقینی بنائے۔ ایسوسی ایشن آف کورٹ رپورٹرز نے کہا کہ احتجاج کی کال کے باوجود نجی چینل کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
ممتاز عالمِ دین علامہ حسن ظفر نقوی نے بھی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ میڈیا ہاؤسز کو سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ملک کی دیگر معروف سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اسی طرح کے مذمتی بیانات جاری کیے۔
حملہ کس نے کیا؟
مشہور و معروف کالم نگار مہر تارڑ نے میڈیا آفس پر حملے کے ذمہ داروں کے بارے میں گزشتہ روز ایک دلچسپ ٹوئٹر پیغام ارسال کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پیپلز پارٹی کے بارے میں ایک پیغام جاری کیا تھا لیکن لوگوں نے مجھ پر ٹوئٹر حملہ کردیا۔
مہر تارڑ نے کہا کہ عوام نے مجھے غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے حمایتیوں نے نجی نیوز چینل پر حملہ کیا تھا۔ مجھے بتایا جائے کہ سچ کیا ہے؟
انہوں نے ایک اور ٹویٹ بھی شیئر کیا جس میں بتایا گیا کہ ہر وقت میڈیا کی آزادی کا راگ الاپنے والے آج سندھ میں پی پی پی کے وڈیروں اور غنڈوں کے ہاتھوں میڈیا نمائندوں پر تشدد ہونے کے بعد سے غائب ہیں۔ پیغام میں حامد میر اور سلیم صافی سمیت 4 معروف تجزیہ کاروں کی تصاویر بھی شیئر کی گئیں۔
I tweeted about PPP but people attacked me that it was a falsehood, and that it was MQM supporters who vandalised Jang and Geo offices. What's the truth? https://t.co/vMPAt47cJs
— Mehr Tarar (@MehrTarar) February 21, 2021