پاکستان میں آزادئ اظہارِ رائے کے تحفظ کے دعوے اور میڈیا دفاتر پر حملے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں آزادئ اظہارِ رائے کے تحفظ کے دعوے اور میڈیا دفاتر پر حملے
پاکستان میں آزادئ اظہارِ رائے کے تحفظ کے دعوے اور میڈیا دفاتر پر حملے

وطنِ عزیز پاکستان میں آزادئ اظہارِ رائے کے تحفظ کے دعوے اپنی جگہ، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت کی قائم کردہ حکومتیں میڈیا پر حملوں کو روکنے میں ناکام نظر آئیں۔

عوامی حمایت سے برسرِ اقتدار آئی ہوئی کسی بھی حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا، تاہم یہ زمینی حقائق بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیے جاسکتے کہ آزادئ اظہارِ رائے کا تحفظ جو حکومتوں کی اوّلین ترجیح ہونا چاہئے تھا، اس کیلئے ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

کراچی میں نجی نیوز چینل کے مرکزی دفتر پر حملہ کیا گیا جس کی مذمت آج ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، ایسوسی ایشن آف کورٹ رپورٹرز، لاہور الیکٹرانک میڈیا رپورٹر ایسوسی ایشن، سیاسی، مذہبی اور مزدور یونینز نے کی۔ آئیے مذکورہ واقعے سمیت پاکستان بھر میں آزادئ اظہارِ رائے سے متعلق صورتحال کے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

نجی ٹی وی چینل اور اخبار کے دفتر پر حملہ

آج کراچی میں نجی چینل کے مرکزی دفتر پر حملے کا مقدمہ میٹھا در تھانے میں درج ہوا اور واقعے کے 13 ملزمان کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ پولیس نے مقدمے میں دہشت گردی، اقدامِ قتل اور املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ دیگر دفعات کو شامل کیا ہے۔

میٹھا در پولیس کے مطابق مقدمہ نجی نیوز چینل کے سیکیورٹی سپروائزر کی مدعیت میں نامزد ملزم مشتاق سرکی اور 13 گرفتار ملزمان کے خلاف ہے جس میں تقریباً 200 نامعلوم ملزمان بھی نامزد ہیں۔ایف آئی آر کے مطابق مشتعل افراد نجی چینل کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے کیلئے آئے جن کی قیادت مشتاق سرکی نے کی اور مظاہرین میں سے کچھ لوگ ٹیلی فون پر کسی سے رابطے میں بھی رہے۔ 

اچانک مذکورہ مشتعل افراد دفتر کا مرکزی دروازہ توڑ کر داخل ہوئے، ملازمین کو یرغمال بنایا اور جیو کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی، ملازمین نے مشتعل افراد کو سمجھایا تاہم مرکزی ملزم مشتعل سرکی اشتعال پھیلانے میں مصروف رہا۔ مظاہرین میڈیا نمائندگان اور انتظامیہ کو جان سے مارنے اور چینل بند کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس اور رینجرز کو اطلاع کردی گئی اور سیکیورٹی اہلکاروں نے 13 افراد کو موقعے پر حراست میں لے لیا۔ واقعے کا مقدمہ درج کیے جانے کے بعد گرفتار افراد کے خلاف قانونی کارروائی اور مزید تفتیش جاری ہے۔ 

مذمتی بیانات 

 ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اور پرتشدد مظاہرے قابلِ معافی نہیں ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ صحافیوں کی آزادی اور آزادئ اظہارِ رائے کو یقینی بنائے۔ ایسوسی ایشن آف کورٹ رپورٹرز نے کہا کہ احتجاج کی کال کے باوجود نجی چینل کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔

ممتاز عالمِ دین علامہ حسن ظفر نقوی نے بھی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ میڈیا ہاؤسز کو سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ملک کی دیگر معروف سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اسی طرح کے مذمتی بیانات جاری کیے۔

حملہ کس نے کیا؟ 

مشہور و معروف کالم نگار مہر تارڑ نے میڈیا آفس پر حملے کے ذمہ داروں کے بارے میں گزشتہ روز ایک دلچسپ ٹوئٹر پیغام ارسال کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پیپلز پارٹی کے بارے میں ایک پیغام جاری کیا تھا لیکن لوگوں نے مجھ پر ٹوئٹر حملہ کردیا۔

مہر تارڑ نے کہا کہ عوام نے مجھے غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے حمایتیوں نے نجی نیوز چینل پر حملہ کیا تھا۔ مجھے بتایا جائے کہ سچ کیا ہے؟

انہوں نے ایک اور ٹویٹ بھی شیئر کیا جس میں بتایا گیا کہ ہر وقت میڈیا کی آزادی کا راگ الاپنے والے آج سندھ میں پی پی پی کے وڈیروں اور غنڈوں کے ہاتھوں میڈیا نمائندوں پر تشدد ہونے کے بعد سے غائب ہیں۔ پیغام میں حامد میر اور سلیم صافی سمیت 4 معروف تجزیہ کاروں کی تصاویر بھی شیئر کی گئیں۔ 

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بعض عناصر پیپلز پارٹی اور بعض ایم کیو ایم کو میڈیا نمائندگان پر حملے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تاہم شروع شروع میں جب یہ نیوز میڈیا چینلز پر چلائی گئی تو حملہ آوروں کا تعلق ایک سندھی قوم پرست سیاسی جماعت سے جوڑا جارہا تھا۔ تاحال واقعے کے حقیقی ذمہ داران کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ 

میڈیا کی آزادی پر سوالات اٹھانے والے دیگر واقعات 

ن لیگ کے دورِ حکومت میں ملیحہ لودھی ایک اخبار کی ایڈیٹر تھیں، اخبار میں نواز شریف پر چند پھبتیاں کسنے والی ایک نظم کی اشاعت پر نقصِ امن کا مقدمہ درج کر لیا گیا جس پر ن لیگی حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

مشہور تجزیہ نگار نجم سیٹھی کو مئی 1999ءکے دوران گرفتار کرکے 1 ماہ تک قید میں رکھا گیا اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے مقدمات بے بنیاد قرار دے کر نجم سیٹھی کی رہائی کا حکم دے دیا۔ 2014ء میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔

آزادئ اظہارِ رائے پر قدغنیں

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی طرف سے مختلف اسباب کی بناء پر نجی ٹی وی چینلز کے لائسنسز کی منسوخی آج کل کوئی قابلِ ذکر اقدام نہیں رہا۔ سن 2020ء میں فریڈم آف ورلڈ کی فہرست میں پاکستان 100 میں سے 38ویں نمبر پر رہا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان آزادئ اظہارِ رائے کے حوالے سے ایک جزوی آزاد ملک قرار دیا گیا تھا۔ پھر سن 2020ء اور اب 2021ء میں بھی آزادئ اظہار کے خلاف اقدامات جاری ہیں۔

اکتوبر 2020ء میں ٹک ٹاک کو بند کردیا گیا۔ بیگو لائیو سمیت دیگر ایپس بھی پی ٹی اے کے غیض و غضب کا شکار رہیں کیونکہ پی ٹی اے نے غیر اخلاقی اور ناشائستہ مواد کے نام پر شائستہ مواد اپ لوڈ کرنے والے شہریوں کو بھی ایپس استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ ڈینیل پرل اور عزیز میمن سمیت متعدد صحافیوں کا قتل بھی آج تک آزادئ اظہارِ رائے کے نام پر بدنما داغ ہے۔ 

اہم اقدامات کی ضرورت 

جس ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کا نظام اپنا کام درست طریقے سے سرانجام نہ دے سکے، وہاں آزادئ اظہارِ رائے پر قدغن ایک عام سی بات بن جاتی ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کے امیر شہریوں کو غریب پر اور حکامِ بالا کو ملازمین پر فوقیت کیوں دی جاتی ہے؟ قانون کی نظر میں سب برابر کیوں نہیں؟ اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو قانون کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟

جب تک بطور ایک انصاف پسند ملک پاکستان اپنے نظامِ انصاف کومضبوط نہیں کرتا، ججز اور عدلیہ اپنا کام درست طریقے سے سرانجام نہیں دیتے اور پولیس اور سیکیورٹی فورسز سمیت سب ادارے قانون کی حکمرانی کو سب سے اوّل نہیں سمجھتے، آزادئ اظہارِ رائے سمیت کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ملک میں صحافیوں اور میڈیا کی آزادی کیلئے حکومت کو اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ 

Related Posts