کراچی:حکومت اور فلاحی ادارے پاکستان کو تھیلیسیمیا فری بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، حکومت شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دے، نومولود بچہ ماں باپ کی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے میں تھیلیسیمیا کا مرض لیکر دنیا میں آتا ہے ۔
تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کی اوسط عمر 18سے 20سال ہوتی ہے، ماں باپ کیلئے وہ گھڑی قیامت سے کم نہیں جب تھیلیسیمیا میں مبتلا بیشتر بچے جوانی کی دہلیز پر زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار آل کراچی تاجر اتحاد اور عتیق میر فاؤنڈیشن کے چیئرمین عتیق میر نے سیلانی بلڈ بینک اینڈ تھیلیسیمیا سینٹر، گلشنِ اقبال میں تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں اور ان کے والدین سے ملاقات میں کیا۔
عتیق میر فاؤنڈیشن کی جانب سے بچوں میں لنچ بکس، کھلونے اور تحائف بھی تقسیم کئے گئے، اس موقع پر ان کے ہمراہ فاؤنڈیشن کے دیگر نمائندگان افضل ہاشمی، الطاف لالہ، شریف میمن، شیخ رفیع، جاوید ملک، جنید باری اور حمید شاہ اورسیلانی بلڈ بینک اینڈ تھیلیسیمیا سینٹر کے ایڈمنسٹریٹر اقبال قاسمانی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام سرور بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر غلام سرور نے بتایا کہ معمولی احتیاط سے تھیلیسیمیا سے بچاؤ آسان بھی ہے اور ممکن بھی، انھوں نے کہا کہ تھیلیسیمیاکی روک تھام سے متعلق مؤثر آگاہی نہ ہونے کے باعث اس موذی مرض میں مبتلاء بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، ملک میں ایک لاکھ سے زائد بچے تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار ہوکر انتہائی اذیتناک زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
تھیلیسیمیا میں مبتلا بچے کو ہر ماہ اوسطاً دو سے تین مرتبہ خون کی ضرورت پیش آتی ہے جوکہ دردمند دل رکھنے والے افراد عطیہ کرتے ہیں، انھوں نے معاشرے کے دردمند اور صحتمند افراد سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے خون کا عطیہ دیں اور تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کی زندگیاں بچائیں۔
مزید پڑھیں:ملکی ترقی و خوشحالی سودی مالیاتی نظام کے دلدل میں دھنس رہی ہے، عتیق میر