انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب آفریدی کا اندوہناک قتل، وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب آفریدی کا اندوہناک قتل، وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب آفریدی کا اندوہناک قتل، وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

خیبر پختونخوا میں گزشتہ روز نامعلوم افراد نے انسدادِ دہشت گردی عدالت سوات کے جج آفتاب آفریدی کو ان کی اہلیہ بی بی زینب، بیٹی کرن اور اس کے 3 سالہ بیٹے محمد سنان کو فائرنگ کرکے قتل کردیا جس کی وجوہات پر تفتیش جاری ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے جج آفتاب آفریدی پر حملے کی مذمت کی ہے۔ آئیے بظاہر ٹارگٹ کلنگ دکھائی دینے والے اِس واقعے سے متعلق مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

اندوہناک قتل اور ایف آئی آر

اتوار کے روز نامعلوم مسلح افراد نے موٹر وے پر جج آفتاب آفریدی، ان کی اہلیہ, بیٹی اور نواسے پر گولیاں برسائیں جبکہ یہ واقعہ شام 6 بجے سے 7 بجے کے درمیان ضلع صوابی میں پیش آیا۔ ایف آئی آر جج آفتاب آفریدی کے بیٹے عبدالماجد آفریدی کی مدعیت میں درج کی گئی۔

جب عبدالماجد آفریدی سے میڈیا نمائندگان نے رابطہ کیا اور ان کا مؤقف پوچھا گیا تو انہوں نے کسی بھی قسم کی رائے دینے سے انکار کردیا، جس سے معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

صوابی پولیس کے مطابق جج آفتاب آفریدی جو اپنی گاڑی میں سفر کر رہے تھے، ان پر گولیاں برسائی گئیں جس کے نتیجے میں آفتاب آفریدی سمیت 4 افراد جاں بحق جبکہ ان کا محافظ اور ڈرائیور زخمی ہو گئے۔

بعد ازاں پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی اور بیٹے دانش آفریدی سمیت 6 افراد ملزمان نامزد ہیں۔ واقعہ انبار انٹرچینج سے 10کلومیٹر بعد پیش آیا۔بعد ازاں زخمیوں اور مقتول افراد کی میتوں کو باچا خان میڈیکل کمپلیکس منتقل کردیا گیا۔ 

عمران خان کا بیان 

قتل و غارت گری کے اِس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ صوابی کے انبار انٹرچینج پر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب آفریدی کی اہلیہ اور 2 بچوں سمیت قتل کی شدید مذمت کرتا ہوں۔

پیغام میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ اس بھیانک اقدام کے ذمہ دار گرفتار کیے جائیں گے اور ان سے پوری سختی سے نمٹا جائے گا۔ 

جج آفتاب آفریدی کا پس منظر

احتساب عدالت جج آفتاب آفریدی کے پی کے میں ضم ہوجانے والے قبائلی علاقے ضلع خیبر میں برقمبر خیل سے تعلق رکھتے تھے جو فروری میں انسدادِ دہشت گردی عدالت سوات کے جج مقرر ہوئے۔

قبل ازیں آفتاب آفریدی چئرمین لیبر کورٹ بھی رہے۔ لطیف آفریدی کا تعلق آفتاب آفریدی کے آبائی علاقے سے ہے جو واقعے کی ایف آئی آر میں نامزد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔

لطیف آفریدی نے عالمی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر ایسا کوئی مقدمہ یا فیصلہ دکھائی نہیں دیتا جو حساس نوعیت کا رہا ہو، تاہم جس طریقے سے انہیں قتل کیا گیا، یہ دیکھنا پڑے گا کہ تفتیش کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ پٹھانوں میں گھر کے بچوں اور خواتین کو قتل کرنے کی کوئی روایت نہیں۔ 

خیبر پختونخوا حکومت کے اقدامات اور تحقیقات 

کے پی کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے واقعے کی اطلاع سامنے آنے کے بعد ملوث افراد کی جلد سے جلد گرفتاری کاحکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت متاثرہ خاندان کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہے اور انہیں پورا انصاف ملے گا۔

پشاور کے وکیل رہنما عالم ایڈووکیٹ کے مطابق ججز پر دہشت گردی کے تقریباً 8 حملے ہوئے۔ جج آفتاب آفریدی پر حملے سے محسوس ہوتا ہے کہ حملہ آور تربیت یافتہ تھے۔

تفتیش کے دوران پولیس تمام تر زاویوں پر غور کرے گی تاہم 2 زاویے یہ ہوں گے کہ کیا آفتاب آفریدی کو ذاتی دشمنی کے باعث قتل کیا گیا یا پھر اس کا تعلق ان کے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں جج کی کرسی سے تھا جبکہ آفتاب آفریدی علاقے میں دشمنیاں بھی رکھتے تھے۔

آفتاب آفریدی کے بیٹے کا بیان اور جائیداد کا تنازعہ 

ڈی پی او صوابی محمد شعیب کا کہنا ہے کہ جج آفتاب آفریدی پر حملہ ذاتی دشمنی کے نتیجے میں کیا گیا۔ واقعے کا مقدمہ گزشتہ شب آفتاب آفریدی کے بیٹے عبدالماجد آفریدی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں قتل، اقدامِ قتل اور دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق عبدالماجد افریدی کا کہنا ہے کہ میرے والد اور اہلِ خانہ پشاور میں ماموں زاد کی شادی میں شرکت کیلئے گئے تھے۔

عبدالماجد آفریدی نے کہا کہ صوابی میں دو گاڑیوں نے عقب سے آ کر میرے والد کی گاڑی پر فائرنگ کی اور میں دوسری گاڑی میں پیچھے موجود تھا۔ جن لوگوں نے میرے والد کو قتل کیا ہے، ان کے ساتھ ہمارا جائیداد کا تنازعہ تھا۔

اسبابِ قتل اور نظامِ حکومت

بلاشبہ مدعی مقدمہ عبدالماجد آفریدی کے بیان سے آفتاب آفریدی اور ان کے اہلِ خانہ کا قتل بظاہر جائیداد کا تنازعہ یا ذاتی دشمنی کا نتیجہ نظر آتا ہے لیکن قتل کے اسباب کچھ بھی ہوں، انہیں جائز یا منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اگر نظامِ حکومت اور عدلیہ خود مضبوط و مستحکم ہو تو کسی بھی مجرم کو جرم کرنے کی جرات نہیں ہوسکتی۔ وزیرِ اعظم عمران خان جو قتل کے جرم کی مذمت کرتے نظر آئے، انہیں ریاستِ مدینہ کی مثال کو سامنے رکھنا ہوگا جس کا اکثر وہ خود ذکر کرتے ہیں۔

ریاستِ مدینہ میں ایک زیورات سے لدی ہوئی عورت ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بلا خوف و خطر چل کر جاسکتی تھی اور کسی جرائم پیشہ شخص یا لٹیرے میں جرات نہیں تھی کہ اسے ہاتھ لگا سکتا۔

مملکتِ خدادا پاکستان میں اگر پولیس اہلکاروں اور ججز کے اپنے گھر ہی مجرموں اور قاتلوں سے محفوظ نہیں ہیں تو وہ عوام کا تحفظ کیسے کریں گے؟ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے ازالے کیلئے ہمیں نظامِ حکومت میں موجود نقائص دور کرنے کی ضرورت ہے۔ 

 

Related Posts