اسلام آباد: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسیوں اور مجوزہ ٹیرف (درآمدی محصولات) کے باعث پاکستان میں ایپل آئی فون کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
معروف وال اسٹریٹ ٹیک ماہر نے خبردار کیا ہے کہ “میڈ ان یو ایس اے” یعنی امریکا میں تیار کردہ آئی فون کی قیمت 3500 امریکی ڈالر تک جا سکتی ہے جو پاکستانی کرنسی میں 10 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے۔
ویڈ بش سیکیورٹیز کے تجزیہ کار ڈین آئیوز نے سرمایہ کاروں کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا کہ ٹرمپ کی پالیسی جو کہ 1980 کی دہائی کے طرز پر امریکی صنعت کو بحال کرنے کی کوشش ہے، درحقیقت ٹیکنالوجی کے شعبے کو معاشی تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
ٹرمپ کی مجوزہ پالیسی کے تحت چین سے درآمدات پر 50 فیصد اور تائیوان سے آنے والی مصنوعات پر 32 فیصد ٹیرف لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ یہ دونوں ممالک عالمی الیکٹرانکس کی تیاری میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان بلند نرخوں کے باعث صارفین کے لیے الیکٹرانک اشیاء کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکا میں تیار کردہ ایک آئی فون کی قیمت موجودہ 1000 ڈالر سے بڑھ کر 3500 ڈالر ہو سکتی ہے۔
ڈین آئیوز نے کہا کہ یہ پالیسیاں مصنوعی ذہانت کی ترقی سمیت ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں کو ایک دہائی پیچھے دھکیل سکتی ہیں۔ انہوں نے اس حکمت عملی کو ایک ناکام سائنسی تجربہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس سے نہ صرف ٹیک انڈسٹری بلکہ عالمی تجارت بھی شدید متاثر ہو گی۔
ادھر چین نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکہ سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر 34 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ٹیرفس کے باعث افراطِ زر (مہنگائی) میں ممکنہ طور پر دوگنا اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے کورونا کے بعد حاصل ہونے والے معاشی استحکام کو شدید دھچکا لگے گا۔
ایک اور تجزیہ کار نے نشاندہی کی کہ ٹرمپ کی طویل المدتی “ری شورنگ” (صنعتی پیداوار کو واپس امریکہ منتقل کرنے) کی پالیسی کا امریکی سیاسی نظام کے مختصر انتخابی ادوار سے تضاد پیدا کرتا ہے، جو کہ عوام کو مہنگائی اور ممکنہ کساد بازاری میں دھکیل سکتا ہے۔