پاکستانی امریکن کاروباری شخصیت تنویر احمد کا نسٹ کو9 ملین ڈالر کا عطیہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
The Israel-U.S. nexus for State Terrorism
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا
zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: پاکستانی امریکن کاروباری شخصیت تنویر احمد نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد کو مالی طور پر کمزور طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے 9 ملین ڈالر کا عطیہ دیا ہے جس کا مقصد پسماندہ پس منظر کے طلباء کو اسکالرشپ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکیں۔

نسٹ نے تصدیق کی ہے کہ تنویر احمد نے غیر مراعات یافتہ طلباء کیلئے ایک انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے یونیورسٹی کے ساتھ شراکت داری کی ہے جس سے تقریباً 200 طلباء مستفید ہوں گے جو ہر سال اسکالرشپ حاصل کر سکیں گے۔ 9 ملین ڈالر کا عطیہ کسی بھی بیرون ملک مقیم پاکستانی کی طرف سے کسی بھی پاکستانی یونیورسٹی کیلئے سب سے بڑا عطیہ ہے۔

بی بی سی کی 100 متاثر کن خواتین کی فہرست میں 2 پاکستانی بھی شامل

ایک انٹرویو میں تنویر احمد نے کہا کہ وہ اس سکیم کو دیگر یونیورسٹیوں تک پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں یہ سکیم مستقل طور پر چلے گی، آئندہ ماہ نسٹ اسلام آباد میں ایک باضابطہ تقریب منعقد ہوگی جس میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت اسکالرشپ پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے شرکت کرے گی۔

ہیوسٹن میں مقیم تاجر نے کہا کہ مستحق طلباء کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ذریعے سالانہ اسکالرشپ ملے گی۔ وظائف کے حصول کا نظام خالصتاً میرٹ پر ہوگا اور اس کا مقصد ان طلبہ کے لیے سہولت فراہم کرنا ہے جو معیاری اور مہنگی تعلیم کے متحمل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہونہار اور مستحق پاکستانی طلباء کی مدد کے لیے انڈومنٹ فنڈ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور جدید ترین ٹیکنالوجیز جیسے مختلف جدید شعبوں میں اپنی شناخت بنا سکیں۔

وہ کیلیفورنیا کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک ہیں اور توانائی کے شعبے اور ادویات کی صنعت میں ان کے کاروباری مفادات ہیں۔ تنویر احمد کو پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران پاکستان کو 50 ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد لینے کا سہرا دیا جاتا ہے۔ وہ سیالکوٹ سے ایک طالب علم کے طور پر امریکہ گئے اور ایک ریستوراں میں کام کیا۔ اس کے بعد انہیں اسی ریستوراں میں بطور منیجر ترقی دی گئی۔

اس کے بعد انہوں نے اپنا ریستوراں کا کاروبار شروع کیا اور اب متعدد کاروبار اور کامیاب کمپنیاں قائم کر لی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کا اپنا عاجزانہ پس منظر ہے جس نے انہیں پاکستانی نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے کی تحریک دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 30 سال پہلے وہ مواقع نہیں تھے جو آج طلباء کے پاس ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ 90 کی دہائی میں امریکہ یا یورپ میں بہت سے کامیاب پاکستانی تھے۔

Related Posts